کتاب: روزہ حقیقت و ثمرات - صفحہ 13
بالرسل کے تعلق منہجِ حق واعتدال جو قرآن وحدیث نے پیش کیا ہے سے منحرف ہوکر کسی غلو وتقصیر یا افراط وتفریط کا شکار ہوجائے تو اس کا ایمان ٹوٹ جائیگا ،
مثلاً: (عشق؟) کرنے پہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اللہ تعالیٰ سے بھی اونچا کردے،اور کوتاہی وتقصیر کی سوجھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اسقدر گھٹادے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ عالی یا سنتِ مطہرہ کو ٹھوکرمارتے ہوئے اس کے بالمقابل اپنے اماموں ،پیروں یا مولویوں کے فتویٰ کو سینے سے لگالے ،محرک کیا ہے؟ صرف گروہی یا مسلکی تعصب(ولاحول ولاقوۃ الاب اللہ )
کیا ایسے شخص کی ایمان کی سلامتی برقرار رہ سکتی ہے؟اس کاروزہ قابلِ قبول وباعثِ اجر ہوسکتا ہے؟ یہاں تو ’’ایمانا‘‘ کی اساس فراہم کرنا ضروری ہے جو اس کے مذکورہ کردار کی وجہ سے مفقود ہے۔
یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے ایک عمومی فرمان کو ملاحظہ کرتے جائیے :
{یَاأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللہ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ } (محمد:۳۳)
ترجمہ:( اے ایمان والو!اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی ،اور اطاعت کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور مت برباد کرو اپنی نیکیوں کو)
روزہ کا حکم :
روزہ فرض ہے،اور اس کی فرضیت کتاب اللہ ،سنتِ رسول اللہ اور اجماعِ امت