کتاب: روشنی - صفحہ 99
عظمتوں کا اعتراف اور آپ کی تعظیم، توقیر اور احترام یہ مفہوم قطعاً نہیں رکھتا اور نہ اس کا یہ تقاضا ہے کہ ہم آپ کی عقیدت میں غلو کر کے اپنا وہ حال کر لیں جو نصاریٰ کا ہوا۔ مذکورہ وضاحت کی روشنی میں صاحب’’ المہند‘‘ کا یہ فرمانا کہ: ’’وہ حصۂ زمین جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضائے مبارکہ کو ’’مس‘‘ کیے ہوئے ہے، علی الاطلاق افضل ہے ، یہاں تک کہ کعبہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔‘‘ نصاریٰ کے غلو سے بڑھا ہوا ہے۔ اسی طرح کا دعویٰ حاجی امداد اللہ نے بھی ’’ثلج الصدور فی حقوق ظہور النور‘‘ میں کیا ہے۔ جس کو نقل کر کے مولاناتھانوی کے ایک مرید نے ان کی خدمت میں بفرض استفسار بھیجا تھا، میں اس دعویٰ پر اس مرید کے تبصرے کو نقل کر دینا چاہتا ہوں ، بعد میں خود کچھ عرض کروں گا: ’’… اس کے متعلق گزارش ہے کہ اوّل تو باب فضائل امکنہ و ازمنہ قیاسی نہیں، بلکہ توقیفی ہے جس میں اجتہاد اور رائے کو دخل نہیں …‘‘ …حضرت والا جس وقت مسروق نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تھا کہ ابا جان! یہ بتلاؤ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ بیٹا تیرے اس سوال سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے، وہی کیفیت اس مضمون سے میری ہوئی ہے، ہاں اگر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بھی فرما دیتے کہ میری قبر کا مقام عرش سے افضل ہے تو ہم کہتے : ’’آمنا باللّٰہ وبرسولہ۔‘‘[1] مولانا تھانوی کے مرید نے دین و شریعت اور فضائل و مناقب کے باب میں دلیل کے بغیر کوئی بات کہنے کی جن الفاظ میں نکارت کی ہے جہاں وہ سو فیصد حق ہیں وہیں ان سے ایک حق پسند مومن کی تصویر کشی ہوتی ہے۔
[1] امداد الفتاویٰ ، ص: ۱۱۳، ج:۶.