کتاب: روشنی - صفحہ 98
سے نکالنا بہت بڑی جسارت اور اللہ تعالیٰ سے بہت بڑی بے خوفی ہے۔
یاد رہے کہ صحیح حدیث کے مطابق مسجد نبوی کی یہ فضیلت ہے کہ اس میں اد اکی جانے والی ایک نماز مسجد حرام کے سوا دنیا کی دوسری مسجدوں میں ادا کی جانے والی ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے۔[1]
اب رہا موصوف کا یہ دعویٰ کہ مسجد نبوی کی مذکورہ فضیلت زیادتی کے ساتھ ’’بقعۂ شریفہ‘‘ (قبر شریف کا وہ حصہ جس کو جسد اطہر چھو رہا ہے) میں موجود ہے، تو پہلی بات یہ کہ دلیل سے عاری ہونے کی وجہ سے یہ دعویٰ کذب و افترا ہے اور دوسری بات یہ کہ اس دعویٰ سے یہ لازم آتا ہے کہ قبر مبارک بھی مسجد نبوی کا ایک حصہ اور عبادت گاہ ہے ، جب کہ یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد کی مذکورہ فضیلت اپنی حیاتِ پاک میں بیان فرمائی تھی اور جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کی تدفین مسجد نبوی میں نہیں، بلکہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ہوئی اور ۷۸ برس تک مسجد سے باہر رہی، پھر جب ولید بن عبدالملک نے ۸۸ھ میں مسجد نبوی کی توسیع کرائی اس وقت اس سبب ’’قبر شریف‘‘ کا حصہ بھی شامل کر لیا ، مگر اس طرح کہ وہ مسجد سے الگ ایک مستقل حجرے میں تین اطراف سے دیواروں سے اس طرح گھری رہی کہ کوئی نماز ادا کرتے ہوئے اس کو اپنا قبلہ نہ بنا سکے اس طرح مسجد نبوی میں شامل کیے جانے کے بعد سے لے کر آج تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک عبادت گاہ اور بت بننے سے محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ نمازیوں کے سامنے آنے سے بھی محفوظ رہی ، اور اس حدیث پر بھی عمل جاری رہا اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو سامنے کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔[2]
بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّد الاولاد آدم، اشرف الرسل اور محبوب رب العالمین ہیں، اور دنیا کے تمام انسانوں ، حتی کہ والدین اور خود اپنے آپ سے بڑھ کر آپ کو چاہنا ، آپ کو عزیز رکھنا اور آپ سے محبت کرنا صحت ایمان کی شرط ہے، مگر آپ سے بے پناہ محبت، آپ کی
[1] بخاری: ۱۱۹۰۔ مسلم: ۱۳۹.
[2] مسلم: ۹۷۲.