کتاب: روشنی - صفحہ 97
مولانا خلیل جیسے عالم حدیث تک نے سفر مدینہ کے وقت قبر مبارک کے بجائے مسجد نبوی کی زیارت کی نیت کرنے کو وہابیوں کی طرف منسوب کیا ہے تاکہ لوگوں کو اس سے متنفر کیا جائے، ورنہ یہ صرف وہابیوں ہی کا نہیں بلکہ عصر صحابہ کے بعد سے آج تک ہر سچے مسلمان کا قول اور مسلک ہے اور اگر نہیں ہے تو ہونا چاہیے، کیونکہ مسجد نبوی ان تین مسجدوں میں سے ایک ہے جن میں دنیا کی تمام مسجدوں کے برعکس پڑھی جانے والی نماز کا خاص اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ قبر مبارک کی زیارت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کوئی فضیلت بیان کی ہے، نہ اس کی کوئی ترغیب ہی دی ہے ، بلکہ اس کو جشن گاہ اور میلہ بنانے سے منع فرما کر اور اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کر کے اس کو بت نہ بننے دے، اس زیارت کی ایک طرح سے ناپسندیدگی کا اظہار فرما دیا ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں صاحب المہند کا یہ فرمانا کہ: ’’جو علت مساجد ثلاثہ کے دیگر مساجد اور مقامات سے مستثنیٰ ہونے کی قرار پاتی ہے وہ ان مساجد کی فضیلت ہی تو ہے اور یہ فضیلت زیادتی کے ساتھ ’’بقعۂ شریفہ‘‘ میں موجود ہے ، اس لیے کہ وہ حصۂ زمین جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضائے مبارکہ کو ’’ مس ‘‘ کئے ہوئے ہے علی الاطلاق افضل ہے ، یہاں تک کہ کعبہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔‘‘ تو یہ محض ایک دعویٰ ہے جس کی پشت پر کتاب و سنت کی کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ اولاً تو وہ فضیلت جو تینوں مسجدوں کو دنیا کی عام مسجدوں سے ممتاز کرتی ہے کتاب و سنت کی رو سے قبر مبارک کو حاصل نہیں ہے، ثانیاً: یہ دعویٰ کہ ’’ یہ فضیلت زیادتی کے ساتھ ’’بقعۂ شریفہ‘‘ میں موجود ہے ،اس لیے کہ وہ حصۂ زمین جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضائے مبارکہ کو ’’مس‘‘ کیے ہوئے ہے علی الاطلاق افضل ہے ، یہاں تک کہ کعبہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔‘‘ یہ دعویٰ ایک ایسی جسارت ہے جس کا ارتکاب وہی شخص کر سکتا ہے جو خالق اور مخلوق ، معبود اور عبد کے درمیان فرق کو نہ جانتا ہو، پھر اتنی بڑی اور سنگین بات کسی دلیل کے بغیر زبان