کتاب: روشنی - صفحہ 96
لیکن اہل توحید اور قال اللہ اور قال الرسول کو دل و جان سے زیادہ محبوب رکھنے والوں سے ان کا بغض و عناد دحلان کے بغض و عناد سے کچھ کم نہیں تھا۔ اسی طرح شریف مکہ سے ربط و ضبط اور اس کے دربار میں آمد و رفت نیز مرکز خلافت قسطنطنیہ سے ربط و تعلق قائم رکھنے میں بھی وہ دحلان سے پیچھے نہ تھا۔ بایں ہمہ شیخ دحلان اور مولانا کیرانوی کے باہمی تعلقات بڑے گہرے تھے اور انہی کی خواہش پر انہوں نے ’’اظہار الحق‘‘ لکھی تھی۔ [1]
مولانا کیرانوی ۱۸۶۲ء میں البلد الحرام پہنچے اور ۱۸۹۱ء میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔
جن دنوں علمائے نجد اور ہندوستان کے علمائے حدیث پر ’’وہابیت‘‘ کا الزام لگا کر ان کو گمراہ اور خارج از ملت قرار دے کر عالم عرب او رعالم اسلام کے علماء اور مسلمانوں کو ان سے متنفر کیا جا رہا تھا اور مکہ مکرمہ میں دحلان کی کتاب الدرر السنیہ اور ہندوستان میں ’’ جامع الشواہد فی اخراج الوہابیین عن المساجد‘‘ اور ’’ انتظام المساجد باخراج اہل الفتن والمفاسد‘‘ کو اعلیٰ پیمانے پر پھیلا کر جزیرۂ عرب اور ہندوستان دونوں جگہ کی فضا کو ان کے حق میں مسموم کیا جا رہا تھا، ان دنوں مکہ مکرمہ میں مولانا آزاد رحمہ اللہ کے والد مولانا خیر الدین اور ہندوستان کے قبوری جماعت کے پیشوا مولانا فضل رسول بدایونی کے صاحبزادے مولانا عبدالقادر بدایونی بھی موجود تھے اور ان چاروں، یعنی حاجی امداد اللہ ، مولانا رحمت اللہ کیرانوی ، مولانا خیر الدین اور مولانا عبدالقادر بدایونی کا شیخ احمد زینی دحلان سے بڑا یارانہ تھا اور یہ پانچوں ایک ساتھ مل کر علمائے نجد اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت کے پیرو کاروں، نیز برصغیر کے علمائے حدیث اور صرف کتاب و سنت کو ماخذ شریعت ماننے والوں پر مکہ کی سر زمین کو تنگ بنائے ہوئے تھے اور اگر ان میں سے کوئی بغرض حج بھی اس مقدس سرزمین کا رُخ کرتا تو شریف مکہ کو اس کے خلاف ورغلا کر اس کو حبس بے جا میں رکھا جاتا، اس پر کوڑے لگوائے جاتے اور اس کو یہاں سے نکلوا کر دم لیا جاتا۔
مذکورہ بالا تفصیلات سے وہ محرک اور سبب سمجھنا آسان ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے
[1] ایک مجاہد معمار ، ص: ۳۵.