کتاب: روشنی - صفحہ 95
کے ردّ میں لکھی تھی اور دحلان نے اپنی کتاب میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کو اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنایا ہے ، مگر مواد سارے کا سارا سبکی کی کتاب ہی سے ماخوذ ہے اور طرزِ بیان بھی بڑی حد تک سبکی کے طرزِ بیان کے مشابہ ہے۔ ہندوستان میں انگریزی سامراج کے خلاف ۱۸۵۷ء میں جو شورش برپا ہوئی تھی اس کی ناکامی کے بعد ہندوستان کے بعض اُن بزرگانِ دین نے جو انگریزی حکومت کو مطلوب تھے، ترک وطن کر کے مکہ میں سکونت اختیار کر لی تھی ، ان بزرگوں میں سر فہرست مشہور صوفی ، وحدۃ الوجود کے داعی اور اس وقت کے مشاہیر ہندوستانی صوفیا کے پیر مغاں حاجی امداد اللہ تھے اور دوسرے نمبر پر مولانا رحمت اللہ کیرانوی تھے جن کو مقبوضہ ہندوستان میں عیسائی مذہبی پیشواؤں سے کامیاب مناظرے کرنے اور عیسائیت کے موضوع پر مشہور کتاب ’’ اظہار الحق‘‘ لکھنے کی وجہ سے نہایت عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا، اور البلد الحرام میں ان کی مزید شہرت کی باعث مدرسہ صولتیہ کی تاحیات نظامت بنی جو ہندوستان کی ایک مخیر خاتون صولۃ النساء بیگم کے ذاتی خرچ پر ۱۲۹۱ھ مطابق ۱۸۷۳ء میں قائم ہوا۔ حاجی امداد اللہ دینی یا عصری علوم کی تحصیل سے تقریباً تہی دامن تھے، البتہ صوفیا کے من گھڑت ’’علم باطن‘‘ سے کافی بہرہ ور تھے اور اپنے مریدوں کے بلند بانگ دعاوی کے مطابق ان پر الہامات کی بارش ہوتی رہتی تھی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود قبر مبارک سے نکل کر اور بصورتِ میانجیو صوفی ان کے سر پر عمامہ رکھا تھا۔ حاجی صاحب کو مثنوی مولانائے روم سے بڑا دلی لگاؤ تھا جس کے معانی و مطالب پر ان کو عبور حاصل تھا اور اس مثنوی کی تفہیم و تشریح اور درس و تدریس میں ان کی حیات مستعار کے شب و روز گزرے۔ حاجی صاحب ۱۸۶۱ء میں مکہ مکرمہ پہنچے تھے ۱۸۹۹ء میں وفات پائی۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے ردّ عیسائیت اور انجیل میں تحریفات کی نقاب کشائی ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادی کے ساتھ تعاون سے کر کے وقت کا نہایت گراں قدر کارنامہ انجام دیا،