کتاب: روشنی - صفحہ 93
معرفت الٰہی اور صلاح و تقویٰ کی کوئی چھاپ نہیں پائی جاتی۔ دراصل صاحب ’’المہند‘‘ نے سفر مدینہ منورہ کے موقع پر زیارت مسجد نبوی کی نیت کرنے کے قول کو ’’ وہابیہ‘‘ کی طرف منسوب کر کے یہ فریب دینے کی سعی ٔ لاحاصل کی ہے کہ اس قول میں وہ منفرد ہیں، گویا دوسرے لفظوں میں یہ دعویٰ کر ڈالا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے لے کر ائمہ عظام کے زمانے تک لوگ قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے مدینہ طیبہ کا سفر کرتے تھے، مسجد نبوی کی زیارت کی نیت سے نہیں، یہ تو محض دعویٰ ہے جس کے حق میں کتاب وسنت کی کوئی دلیل نہیں ہے، البتہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ عمل ثابت ہے کہ جب وہ باہر سے مدینہ واپس آتے تو مسجد نبوی میں حاضر ہو کر دو رکعتیں تحیۃ المسجد کی پڑھتے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سلام پڑھتے ہوئے باہر چلے جاتے ان کے سوا کسی اور صحابی سے یہ عمل ثابت نہیں ہے۔ رہا قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر تو صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کی سیرت سے ثابت نہیں ہے۔ معلوم رہے کہ صاحب المہند نے یہ کتاب اُن الزامات کے ردّ میں لکھی تھی جو بریلوی عقیدے کے بانی مولانا احمد رضا خاں نے علمائے دیو بند کے عقائد پر لگا کر ان کی آنکھوں سے نیند اُڑا لی تھی اور ان کو وہابی قرار دیتے ہوئے ان کو اہل سنت و جماعت سے خارج کر دیا تھا اور اس وقت کے علمائے حرمین کو جو شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور ان کی اصلاحی دعوت کے سخت خلاف تھے، علمائے دیو بند کے خلاف خوب بھڑکا آئے تھے اور ان کے کافر ہونے کے اپنے فتویٰ پر ان کی تصدیقات بھی حاصل کر لی تھیں۔ یہ ۱۳۲۳ھ مطابق ۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے، اس وقت تک حجاز شاہ عبدالعزیز کے زیر اقتدار نہیں آیا تھا اور حجاز کے علماء شیخ محمد کی دعوتِ توحید سے ناواقفیت ، صوفیانہ اذکار و خیالات کے اثرات اور بعض مادی اور سیاسی اغراض و مقاصد کی وجہ سے شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ان کی دعوت کے سخت خلاف تھے۔ مکہ مکرمہ میں ان دنوں شیخ احمد زینی دحلان (ولادت ۱۲۳۲ھ مطابق ۱۸۱۳ء ، وفات