کتاب: روشنی - صفحہ 92
داعی تھے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ حدیث و فقہ عمل پیرا تھے، یعنی عقیدہ و عمل میں کتاب و سنت کی پیروی ، اگر موصوف کو شیخ محمد کی کسی بات سے اختلاف بھی تھا تو اس صورت میں بھی کیا یہ بات ان کے مقام و مرتبے کے شایانِ شان تھی کہ وہ ایک ’’ مؤحد مسلمان‘‘ کو بدنام کرنے والی ’’ شیطانی مہم‘‘ کا حصہ بنیں؟ مولانا خلیل کی کتاب میں شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ان کی دعوتِ توحید کے حامیوں کے لیے ’’ وہابیہ‘‘ کی تعبیر پر میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اس کا مقصد صرف یہ دکھانا تھا کہ یہ ’’اللہ والے‘‘ لوگ جن کو دنیا اہل طریقت اور اصحاب سلوک کے نام سے جانتی ہے ، کتاب و سنت کے داعیوں سے کتنا بغض رکھتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل اپنے قارئین کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا سب سے اعلیٰ اور حاصل زندگی کارنامہ ’’ کتاب التوحید الذی ہو حق اللّٰہ علی العبید‘‘ کی تصنیف ہے۔ شیخ نے یہ کتاب ۱۷۴۰ء ۱۷۴۵ھ کے درمیانی سالوں میں کسی وقت لکھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک ان کے خلاف افترا پردازیوں، الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں کا ایک طوفانِ بد تمیزی برپا ہے، لیکن ڈھائی صدیوں سے اوپر اس طویل مدت میں ان کے اور ان کی دعوتِ توحید کے مخالفین اور دشمنوں کی تعداد لاکھوں نہیں کروڑوں تک پہنچ گئی۔ مگر اس پوری مدت میں کوئی ایک بھی مردِ میدان ایسا نہ پیدا ہوا، جو کتاب التوحید کی کسی ایک سطری عبارت کو بھی کتاب و سنت کی تعلیمات سے متصادم دکھا یا ثابت کر سکے جس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ان طویل سالوں میں خود جزیرۂ عرب اور پھر باہر کی دنیا میں ان کے اور ان کی دعوت کے خلاف جو کچھ لکھا یا کہا گیا وہ سب جھوٹ ، من گھڑت اور افترا ہے اور اس حق دشمنی کا سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس دعوتِ توحید کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور صاحب دعوت شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ان کے پیرؤوں کو بدنام کرنے کے لیے ان پر جھوٹے الزامات لگائے، وہ نام نہاد صلحاء اور عارفین باللہ ہی رہے ہیں جن کے کردار پر