کتاب: روشنی - صفحہ 91
مولانا خلیل احمد کے جو القابان کی نام نہاد جماعت ’’ اہل سنت و جماعت ‘‘ سے وابستہ لوگوں کے حلقوں میں معروف و مشہور ہیں، ان میں سر فہرست ’’فخر المحدثین‘‘ کا لقب ہے ، اس عظیم اور مابہ الامتیاز لقب کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اس کے حامل کی زبان اور قلم کسی کی عیب جوئی، استہزاء اور لقب زنی سے پاک ہو ، کیونکہ قرآن پاک میں اس کو ’’فسق‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور اگر یہ عیب جوئی ، استہزاء اور لقب زنی کسی ایسے انسان کی ہو جس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے ایسے وقت میں جب کہ اس مرکز اسلام ’’ جزیرۂ عرب ‘‘ میں توحید کی روشنی ماند پڑ گئی تھی اور ہر سو شرک و بدعات کا راج قائم ہو چکا تھا، اس توحید کی آواز بلند کی جو تمام انبیاء اور رسولوں کی بعثت کا مقصد اعلیٰ تھی: ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ﴾ (الانبیاء:۲۵) ’’ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھیجا اس کو ہم یہی وحی بھیجتے رہے کہ درحقیقت نہیں ہے کوئی معبودِ حقیقی مگر میں، سو تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘اس عیب جوئی اور لقب زنی کی نکارت دو چند ہو جاتی ہے۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی اصلاحی دعوت کی مؤیدین اور مخالفین دونوں یہ بات جانتے ہیں کہ انہوں نے کوئی مذہب، جماعت اور تحریک تشکیل نہیں دی، بلکہ جو کچھ کیا وہ صرف یہ کہ انہوں نے توحید کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ، یہی وہ مرکزی نقطہ تھاجس پر ان کی اور ان کے ساتھیوں کی ساری جدو جہد مرکوز تھی۔
مولانا خلیل احمد کا تعلق برصغیر میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کے شدید مخالفین سے سہی ، لیکن ان کو یہ بات یقینا معلوم رہی ہو گی کہ ان کی دعوت کو ہندوستان میں ’’وہابیت‘‘ کا نام دینے والے انگریز تھے اور عالم عرب میں جن لوگوں نے توحید خالص کی اس دعوت کو بدنام کرنے کے لیے اس کو یہ نام دیا وہ صوفیا کا گروہ تھا جس کو عثمانی حکومت کی مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی۔
تو کیا ایک ’’ فخر المحدثین‘‘ کے لیے یہ بات شرعی اور علمی حیثیت سے درست تھی کہ وہ ایک ایسے مخلص دعای حق اور اس کے پیرؤوں کو ’’ وہابیہ‘‘ کا نام دے جو اس طریقے اور منہج کے