کتاب: روشنی - صفحہ 90
لوگ ان اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں ان کے حق میں یہ زیارت جائز نہیں، بلکہ گناہ ہے۔ قارئین کرام سے میری درخواست ہے کہ وہ اپنے ذہن و دماغ کو جذبات سے پاک کرکے میری یہ باتیں پڑھیں اور یاد رکھیں کہ اسلام میں قبروں کی زیارت نہ تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے اور نہ اصحاب قبور کی تعظیم و تکریم کے اظہار کا عمل ، بلکہ صرف اس احساس کو تازہ رکھنے کے لیے اس کی اجازت دی گئی ہے کہ اس دنیا کی زندگی ناپائیدار ہے اور اعمالِ دنیا کے حساب کتاب کے لیے دوسری دنیا میں جانا ہے۔ دراصل زیارت قبور کے ساتھ اکابر اُمت کی قبروں کو جوڑنے کا کام صوفیا کا ایجاد کردہ ہے وہ اپنے پیروں اور مشائخ کی موت اور فنا کا عقیدہ نہیں رکھتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے وصال کا غیر اسلامی عقیدہ رکھتے ہیں، اسی وجہ سے ان کے یہاں عام قبروں کی زیارت کا شرعی حکم تو کوئی قدر وقیمت نہیں رکھتا، بلکہ اکابر صوفیا کی قبریں کے نزدیک مرجع خلائق او رایسی زیارت گاہیں ہیں جہاں تمام مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ اب میں ایک محدث مولانا خلیل احمد سہارنپوری کی ایک عبارت پر تبصرہ کر کے یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ جب عقیدے میں فتور پیدا ہو جائے تو راہِ حق گمراہی اور اس کے مسافر گمراہ نظر آنے لگتے ہیں، چنانچہ مولانا موصوف رقم طراز ہیں: ’’وہابیہ‘‘ کا یہ کہنا کہ مدینہ منورہ کی جانب سفر کرنے والے کو صرف مسجد نبوی کی نیت کرنی چاہیے اور اس قول پر اس حدیث کو دلیل لانا کہ ’’ کجاوے نہ کسے جاویں مگر تین مسجدوں کی جانب ‘‘ سو یہ قول مردود ہے، اس لیے کہ حدیث کہیں بھی ممانعت پر دلالت نہیں کرتی، بلکہ صاحب فہم اگر غور کرے تو یہی حدیث’’بدلالۃ النص‘‘ جواز پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ جو علت مساجد ثلاثہ کے دیگر مسجدوں اور مقامات سے مستثنیٰ ہونے کی قرار پاتی ہے وہ ان مساجد کی فضیلت ہی تو ہے اور یہ فضیلت زیادتی کے ساتھ’’ بقعہ شریفہ‘‘ میں موجود ہے، اس لیے کہ وہ حصہ زمین جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضائے مبارکہ کو ’’ مس‘‘ کیے ہوئے ہے، علی الاطلاق افضل ہے، یہاں تک کہ کعبہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔‘‘