کتاب: روشنی - صفحہ 89
افضل ترعبادت ہونے کے باوجود نعوذ باللہ اپنی اُمت سے بیان نہیں فرمایا، حاشا وکلا!!
پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بفرض عبادت صرف تین مسجدوں کے لیے سفر کی اجازت دے کر اپنی قبر مبارک کی زیارت کے لیے سفر کو ممنوع قرار دے دیا، ارشادِ نبوی ہے:
((لا تُشد الرحال إلا إلی ثلاثۃ مساجد:المسجد الحرام، و مسجد الرسول، و مسجد الأقصی۔))
’’تین مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنے کے لیے کجاوے نہ کسے جائیں: مسجد حرام، مسجد رسول اور مسجد اقصیٰ۔‘‘
حدیث کا مطلب ہے کہ مذکورہ تینوں مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد میں نماز ادا کرنے کی غرض سے سفر کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ ان تین مسجدوں کے سوا دنیا کی تمام مساجد عام ہیں اور ان سب میں نماز ادا کرنا اپنے اجر و ثواب کے اعتبار سے یکساں ہے۔
اب رہی قبر مبارک کی زیارت تو گزشتہ صفحات میں پوری تفصیل اور پوری وضاحت کے ساتھ یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ اس زیارت کی فضیلت کے باب میں کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے ، اس تناظر میں قبر مبارک کی زیارت عام قبروں کی زیارت کے حکم میں شامل ہے اور یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ قبروں کی زیارت صرف جائز ہے، بشرطیکہ اس کا مقصد ذکر موت و آخرت ہو ، اور چونکہ موت و آخرت کی یاد تازہ رکھنے کی غرض سے قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ جواز اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے مدینہ منورہ کا سفر ناجائز ٹھہرا، کیونکہ شرعًا یہ زیارت نہ تو مطلوب ہے اور نہ ضروری، البتہ جو لوگ نماز اد اکرنے کی غرض سے مسجد نبوی میں جائیں ان کے لیے قبر مبارک کی زیارت جائز ہے بشرطیکہ اس کے پاس خلاف شرع نہ کوئی بات زبان سے نکالیں اور نہ کسی خلاف شرع کام کا ارتکاب کریں، مثلاً: آپ سے دعائیں مانگنا، شفاعت کی درخواست کرنا، آپ کا واسطہ دے کر اللہ سے بخشش طلب کرنا، اپنی پریشانیوں کے ازالے، رزق میں کشادگی اور بیماریوں سے شفا کی درخواست کرنا وغیرہ اور جالیوں پر ہاتھ پھیرنا اور پھر ان کو چومنا، جو