کتاب: روشنی - صفحہ 88
زیارت قبور سے متعلق اسلام کے موقف کے اس قدر واضح ہو جانے اور متعدد حدیثوں میں انبیاء و صلحاء اور بزرگانِ دین کی قبروں پر مسجدیں بنانے والوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لعنت فرمانے اور اپنی اُمت کو اپنی قبر مبارک کے پاس میلہ لگانے سے روکنے اور اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کہ وہ آپ کی قبر مبارک کو بت نہ بننے دے ان تمام باتوں کے باوجود مدینہ منورہ کی زیارت پر جانے والوں کی اکثریت مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی سعادت اور ثواب حاصل کرنے کے ارادے اور نیت سے تو خالی الذہن ہوتی ہے، البتہ ہر ایک کو قبر مبارک کے پاس کھڑے ہو کر اور اس کی طرف رُخ کر کے درُود و سلام پڑھنا خوب یاد رہتا ہے، یعنی جو چیز مطلوب تھی، یعنی مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کرنا اس کو تو بھلا دیا گیا اور جو چیز مطلوب نہیں تھی بلکہ ممنوع تھی، یعنی قبر مبارک کی زیارت کی غرض سے مدینہ منورہ کا سفر تو اس کو نہ صرف یہ کہ یاد رکھا گیا، بلکہ اس کو اہم ترین نیکی اور افضل ترین عبادت قرار دے لیا گیا، بلکہ پوری جرأت اور ڈھٹائی کے ساتھ قبر مبارک کی زیارت کو اصل اور مسجد نبوی کی زیارت کو اس کے تابع کر دیا گیا۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کس بنیاد پر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کو غیر مطلوب ، بلکہ ممنوع قرار دے دیا؟ کیا اس کی کوئی شرعی دلیل ہے یا محض دعویٰ ہے؟ اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ پاک میں ایک بار بھی نہ صراحتاً اور نہ اشارتًا اپنی قبر مبارک کی زیارت کی کوئی فضیلت بیان فرمائی ہے، اور نہ اس کی ترغیب دی ہے ، اگر اسلام کی نظر میں اس زیارت کی کوئی شرعی اہمیت ہوتی تو جن حدیثوں میں آپ نے مسجد نبوی میں ادا کی جانے والی نمازوں کے اجر و ثواب بیان فرمائے ہیں انہی میں اپنی قبر مبارک کی زیارت کی فضیلت بھی بیان فرما دیتے، کیونکہ اگر اس فضیلت کا کوئی وجود ہوتا تو اس کو بیان کرناآپ کے فرائض منصبی میں داخل تھا، اور نہ بیان کرنا تبلیغ رسالت میں کوتاہی تھی، تو کیا کوئی معمولی سا مسلمان بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ سوچ سکتا ہے کہ آپ نے اپنی قبر مبارک کی زیارت کی اہمیت و فضیلت کو ، اس کے اہم ترین نیکی اور