کتاب: روشنی - صفحہ 86
((لا تطرونی کَمَا أطرت النصاری ابن مریمَ، فانما أنا عبدہ، فقولوا عبداللّٰہ و رسولہ۔))
’’جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کی بے جا تعریف کی اس طرح تم لوگ میری بے جا تعریف مت کرنا، کیونکہ میں تو محض اللہ کا بند ہوں، اور کہو: اللہ کا بندہ اور رسول۔‘‘[1]
اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں کفار کی جانب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلسل معجزوں کے اظہار کے مطالبے کا ذکر کرنے کے بعد آپ کو جو حکم دیا وہ بڑا بلیغ اور معنی خیز ہے:
﴿ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا ﴾ (الاسراء:۹۳)
’’کہہ دو! میرا رب ہر نقص سے پاک ہے ، یا میں انسان رسول کے سوا کچھ اور ہوں۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ میں تو محض انسانی برادری سے تعلق رکھنے والا رسول ہوں جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں تک اپنے احکام کی تبلیغ کے لیے چن لیا ہے ، اس کی وجہ سے نہ کائنات کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آگئی ، اور نہ مجھے خدائی اختیارات حاصل ہو گئے۔
قدیم انبیاء کی تاریخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھی۔ آپ نے خود مسلمانوں سے ان مشرکانہ اعمال کا ذکر کر کے جن کا ارتکاب یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیاء اور صلحاء کی قبروں سے متعلق کیا ہے، ان کی نکارت بیان فرما دی تھی جس کے بعد بظاہر اس کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی کہ آپ اپنی اُمت کے لوگوں کو اپنی قبر مبارک کے پاس میلہ لگانے سے منع کریں، لیکن چونکہ قبر پرستی ہر زمانے میں بت پرستی کا اصل سبب رہی ہے، اس لیے آپ نے اپنی قبر مبارک کی زیارت کے مسئلے کو بھی واضح فرما دیا، آپ کا ارشاد ہے:
((لا تجعلوا قبری عیدًا وَلا تجعلوا بیوتکم قبورًا ، وصلوا علیَّ وسلموا حیثما کنتم ، فسیبلغنی سلام و صلاتکم۔))[2]
[1] بخاری: ۳۴۴۵، ۶۸۳۰.
[2] فضل الصلاۃ: ۲۰.