کتاب: روشنی - صفحہ 85
ترین عبادت قرار دیا؟!! رسول اکرم فداہ ابی و اُمی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے اس کا نمونہ پیش کرنے سے قبل یہ واضح کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ساری دنیا کے لوگوں سے چاہنا صحت ایمان کی شرط ہے ، جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے: (( لا یؤمن احدُکم حتی اکون احب إلیہ من والدِہ وولدہ والناس اجمعین۔)) [1] ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ ، بچوں اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے اپنی ذات کے سوا بقیہ تمام چیزوں سے زیادہ عزیز و محبوب ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا ، والذیْ نفسی بیدہ، حتی اکون احب إلیک من نفسک۔)) [2] ’’ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! یہاں تک کہ میں تیرے نزدیک تیری جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ جب تک تم مجھ کو اپنی ذات سے زیادہ نہ چاہنے لگو اس وقت تک تمہارا ایمان معتبر نہیں ہے۔ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ شدید اور بے مثال محبت مطلوب ہے جس کے بغیر ایمان کا اعتبار بھی نہیں، دوسری طرف آپ کی مدح و ستائش اور نعت و تعریف میں اعتدال پسندی بھی اسی درجے میں مطلوب ہے ، چنانچہ انہی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
[1] بخاری: ۱۵۔ مسلم: ۴۴. [2] بخاری: ۶۶۳۲.