کتاب: روشنی - صفحہ 84
ان کی مزید وضاحت کی کوشش ان کو مبہم بنا دے گی ، ان ارشادات کے آئینے میں اُمت سے نسبت کا دعویٰ کرنے والے وہ افراد جنہوں نے بزرگانِ دین اور صلحائے اُمت کی مبالغہ آمیز عقیدت میں عالم اسلام کو ان کے مزاروں سے بھر دیا، اپنا مکروہ چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے گزشتہ صفحات میں زیارت قبور، پھر انبیاء و صلحاء کی قبروں پر مسجدیں بنانے والوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنتوں سے متعلق جو صحیح ترین احادیث پیش کی ہیں، ان سے صبح روشن کی طرح یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ’’ زیارت قبور‘‘ کا مقصد موت و آخرت کی یاد تازہ کرتے رہنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے ہر طرح کی قبروں کی زیارت مفید ہے ، بلکہ خواص اور صلحاء کی قبروں کے برعکس عوام کی قبروں کی زیارت سے یہ مقصد زیادہ بہتر طریقے سے پورا ہوتا ہے اور شرک میں مبتلا ہونے کا کوئی اندیشہ بھی نہیں رہتا۔ انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو سجدہ گاہوں میں تبدیلی کرنے والوں اور ان پر چراغاں کرنے والوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح لعنت فرمائی ہے ، اس کے بعد ان قبروں میں مدفون لوگوں کی تعظیم و تکریم کے جذبے اور ان سے تبرک حاصل کرنے ، ان سے مافوق الاسباب اُمور میں مدد چاہنے اور اپنے اور اللہ کے درمیان ان کو واسطہ بنانے کی غرض سے ان کی زیارت ہر معیار سے شرک اعظم ہے، اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ اس کی بھر پور ترویج ہو رہی ہے ، بلکہ اس قبر پرستی میں جو لوگ غرق ہیں وہی اپنے آپ کو اہل سنت و جماعت مانتے ہیں اور ان کی نگاہوں میں جو ان کے عقیدہ و عمل کے خلاف ہیں وہ سب گمراہ ہیں، دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ یہ واضح ہو جانے کے بعد کہ زیارت قبور کے حکم میں اشارتًا بھی اہل قبور کی تعظیم کا کوئی پہلو شامل نہیں ہے ، یہ بحث تمام ہو جانی چاہیے، لیکن چونکہ اربابِ تصوف کے نزدیک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت اہم ترین نیکیوں اور افضل ترین عبادتوں میں سے ایک ہے، لہٰذا یہ معلوم کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مبارک سے کبھی اپنی قبر مبارک کی کوئی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس کی زیارت کی ترغیب دی ہے، اگر نہیں دی ہے اور یقینا نہیں دی ہے تو پھر اس زیارت کو کس چیز نے اہم ترین نیکی اور افضل