کتاب: روشنی - صفحہ 82
درخواست کرنی چاہیے، دوسرے لفظوں میں ان کے لیے دُعا کرنی چاہیے ۔ رہی ان سے دعا ، یاان کے و اسطہ سے دُعا ، یا ان کی قبروں سے برکت کے حصول کا اعتقاد وغیرہ تو یہ سب صوفیا کی شخصیت، پرستانہ ذہنیت کی پیداوار ہے اور اپنی اسی بیمار ذہنیت کے علاج کی خاطر انہوں نے زیارت کے لیے بزرگانِ دین اور صلحائے اُمت کی قبروں کی تخصیص کر دی، اس طرح وہ مقصد فوت ہو گیاجس کے لیے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کی اجازت دی تھی۔
موجودہ وقت میں پوری دنیا میں عموماً اور برصغیر کے ملکوں میں خصوصاً بزرگانِ دین، نام نہاد اولیاء اللہ اور صالحین کی حقیقی اور مزعومہ قبروں کے پاس جن مشرکانہ اعمال کا ارتکاب ہوتا ہے، ان کی روشنی میں اُن مفاسد کو سمجھا جا سکتا ہے جن کا دروازہ اربابِ تصوف نے بزرگانِ دین کی قبروں کو زیارت گاہوں میں تبدیل کر کے کھولا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں جو کچھ فرمایا ہے وہ صوفیا اور اپنے آپ کو اہل سنت و جماعت کے لقب سے نوازنے والوں کی نگاہوں میں نہیں آتا یا آتا تو ہے مگر تاویل و توجیہ کی خوگر ان کی طبیعت ان ارشادات نبوی سے بھی اپنے لیے جواز یا راہِ حق سے فرار کے طریقے ایجاد کر لیتی ہے۔
یہاں پہنچ کر آیئے اُن چند ارشاداتِ نبوی پر ایک نظر ڈالتے چلیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اولیاء اور صلحاء کی قبروں کی مرجع خلائق بنانے والوں پر لعنت بھیجی ہے:
۱۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُس بیماری میں جس سے آپ جاں بر نہ ہو سکے ، فرمایا:
((لعن اللّٰہ الیہود، اتخذوا قبور انبیاء ہم مساجد، قالت عائِشۃ: لولا ذلک لأبرز قبرہ، خَشِی أن یُتخذ مسجدًا۔))[1]
’’اللہ لعنت فرمائے یہودیوں پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’اگر یہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر نمایاں کر دی جاتی، مگر خوف ہوا کہ سجدہ گاہ نہ بنا لی جائے۔‘‘
[1] بخاری: ۴۴۴۱۔ مسلم: ۵۳۱۔ نسائی: ۲۰۴۶.