کتاب: روشنی - صفحہ 81
یہ دراصل وہ دعا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں مدفون صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اللہ تعالیٰ سے کرتے تھے، اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ ایک دوسری حدیث میں یہ صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اہل بقیع کے لیے مغفرت کی دُعا کرنے کا حکم دیا تھا، یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ہے: ((إن جبریل أتانی ، فقال: إن ربک یأمرک أن تأتی أہلَ البقیع، فتستغفرلہم۔)) ’’درحقیقت جبریل میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ اہل بقیع کے پاس جایئے اور ان کے لیے مغفرت طلب کیجیے۔‘‘ مذکورہ فقرہ کا مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے بقیع کے قبرستان کی زیارت کی تھی اور اس میں مدفون مردوں پر اللہ تعالیٰ سے سلامتی کے نزول اور ان کی مغفرت طلب کی تھی۔ اسی حدیث کے آخر میں اُم المؤمنین فرماتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اس موقع پر وہ کیا کہیں، تو آپ نے فرمایا: (( قولی ، السلام علی اہل الدیار من المؤمنین والمسلمین، ویرحم اللّٰہُ المستقدمین والمستأخِرِین ، وإنا ان شاء اللّٰہ بِکم للاحقون۔))[1] ’’کہو، مومنوں اور مسلمانوں کی بستی والوں پر سلامتی ہو اور اللہ ان لوگوں پر رحم فرمائے جو آگے جا چکے اور جو بعد میں جانے والے ہیں، عنقریب ہم تم سے ملنے والے ہیں۔‘‘ ان دونوں حدیثوں سے جو حکم نکلا وہ یہ کہ مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کے موقع پر یا ان کے پاس سے گزرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ان پر سلامتی کے نزول اور ان کی مغفرت کی
[1] مسلم: ۹۷۴۔۱۰۳.