کتاب: روشنی - صفحہ 80
اُمت کی قبروں کی زیارت کو تقرب الٰہی کا ذریعہ قرار دے ڈالا اور بزرگان اور صلحاء سے ان کی مراد اکابر صوفیا ہیں جن کی قبریں اور مزارات عالم اسلام میں عموماً اور برصغیر کے ملکوں میں خصوصاً پھیلے ہوئے ہیں، جہاں میلے لگتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگی جاتی ہیں۔ اس طرح صوفیا کے ہاتھوں دو مفاسد وقوع پذیر ہوئے:
۱۔ زیارت کے لیے صلحائے اُمت کی قبروں کی تخصیص اور ان کو مزاروں میں تبدیل کرنا۔
۲۔ موت و آخرت کی یاد دہانی کے بجائے قبروں کی زیارت کے موقع پر اہل قبور کو اپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ بنانا اور جن اُمور پر صرف اللہ تعالیٰ قادر ہے ان میں ان اہل قبور کو بھی صاحب تصرف قرار دے لینا اس طرح یہ قبریں موت و آخرت کو یاد دلانے والی نہیں، بلکہ بت خانوں میں تبدیل ہو گئیں جہاں صریح مشرکانہ اعمال کا ارتکاب ہونے لگا۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ کفار و مشرکین کی قبروں کی زیارت یا ان کے پاس سے گزرتے وقت ان کے لیے دعا و استغفار جائز نہیں ہے،بلکہ ان پر نگاہ عبرت ڈالتے ہوئے گزر جانا چاہیے۔
لیکن مسلمانوں کی قبروں کی زیارت یا ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان پر سلامتی کی دعا کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ان کی باری کی رات کے آخری پہر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع جایا کرتے، جہاں آپ فرماتے:
((السلام علیکم دارَ قوم مؤمنین و أتاکم ما توعدون غدًا مؤجلون و إنا ان شاء اللّٰہ بکم للاحقون، اللّٰہم اغفر لأہل بقیع الغرقد۔))[1]
’’اے مومن قوم کی بستی والو! تم پر سلامتی ہو، تمہیں کل وہ مل جائے گا جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا تھا، تم اس وقت تک کے لیے موخرکر دیئے گئے ہو، ان شاء اللہ ہم تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! تو بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما دے۔‘‘
[1] مسلم: ۹۷۴.