کتاب: روشنی - صفحہ 79
اوپر نقل کردہ چاروں حدیثوں میں سے تین حدیثوں میں زیارت قبور کا حکم دینے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ آپ نے اس زیارت سے منع فرما رکھا تھا اس اسلوبِ بیان نے صیغۂ امرکے ذریعہ دیے جانے و الے حکم کو وجوب سے نکال کر اباحت اور جواز کے درجہ میں کر دیا، کیونکہ یہ شرعی قاعدہ ہے کہ کسی کام سے منع کر دینے کے بعد بذریعۂ صیغۂ امر اسی کام کا حکم واجب کے معنی میں نہیں، بلکہ مباح کے معنی میں ہوتا ہے، اِ لّا یہ کہ ایسا کوئی قرینہ ہو جو وجوب کے مفہوم پر دلالت کرتا ہو، لیکن تینوں حدیثوں سے جو مفہوم اشارتًا نکل رہا تھا اس کو چوتھی حدیث نے صراحتاً ثابت کر دیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر ((فَمَنْ أَرَادَ أَنْ یَّزُوْرَ فَلْیَزُرْ۔))’’ جو زیارت کرنا چاہے وہ زیارت کرے‘‘ یہ واضح فرما دیا کہ زیارتِ قبور جائز اور مباح ہے واجب نہیں۔
مذکورہ چاروں حدیثوں میں ’’ القبور‘‘ کا لفظ عام ہے، جن میں مسلمانوں اور مشرکین دونوں کی قبریں داخل ہیں، اور جس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی والدہ ماجدہ کی قبر کی زیارت کا ذکر ہے وہ تو اس مسئلے میں صریح ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا انتقال حالت شرک میں ہوا تھا اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے لیے استغفار کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، جب کہ مذکورہ حدیث میں صراحت ہے ، اور قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کو اہل ایمان کی شان سے فروتر قرار دیا ہے ، ارشادِ الٰہی ہے:
﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى ﴾ (التوبہ:۱۱۳)
’’نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لا چکے ہیں ، روا نہیں ہے کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت طلب کریں، اگرچہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
معلوم ہوا کہ موت اور آخرت کی یاد دہانی کرانے میں مسلمانوں اور کافروں کی قبروں کی زیارت یکساں حکم رکھتی ہے، اس حکم سے ایک اور حکم یہ نکلا کہ ’’ زیارتِ قبور‘‘ سے اہل قبور کی تعظیم و تکریم مطلوب و مقصود ہے ہی نہیں، یہ تو بعد میں صوفیا نے بزرگانِ دین اور صلحائے