کتاب: روشنی - صفحہ 78
والوں اور اپنے آپ کو اہل سنت و جماعت کہنے والوں میں صلحاء اور بزرگانِ دین کی قبروں کو مرجع خلائق اور مقبول عام مزارت میں تبدیل کرنے کا جذبہ ان کے بارے میں مبالغہ آمیز عقدیت ہی کی پیداوار ہے، جب کہ عام قبروں یا عوام کی قبروں کی زیارت کرتے ہوئے نہ اصحابِ قبور کے بارے میں کوئی عقیدت ہوتی ہے اور نہ ان سے کسی کشف و کرامت کے ظہور کی اُمید اور توقع ہوتی ہے اس طرح زیارت کرنے والا بُرے عقیدہ و عمل سے دوچار نہیں ہوتا، بعید نہیں کہ احادیث میں زیارت قبور کا مقصد واضح اور متعین کر دینے میں انبیاء اور صلحاء کی قبروں کی زیارت سے روکنا بھی پیش نظر رہا ہو جس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک اور ارشاد میں زیارتِ قبور کے موقع پر غلط اور بُری باتیں زبان سے نکالنے سے منع فرمایا ہے ، ارشاد نبوی ہے: ۴۔ ((نہیتکم عن زیارۃ القبور ، فمن أراد أن یزورَ ، فلیزر، ولا تقولوا ہُجرا )) [1] ’’میں نے تم لوگوں کو زیارت قبور سے روک دیا تھا، سو جو کوئی زیارت کرنا چاہے کرے اور فحش اور گندی بات مت بولو۔‘‘ حدیث میں جو بات زبان سے نکالنے سے منع کیا گیا ہے اس کے لیے ’’ہجر‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی فحش ، غلط اور گندی کے ہیں اور یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ دنیائے اسلام میں پھیلی ہوئی بزرگانِ دین اور صلحائے اُمت کی قبروں کی زیارت کے موقع پر زائرین کی زبانوں اور جوارح سے جن اقو ال و افعال کا صدور ہوتا ہے دین و شرع کی نظر میں ان سے زیادہ بُری اور گندی بات کیا ہو گی، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اہل قبور سے دعائیں مانگی جاتی ہیں ، ان سے فریادیں کی جاتی ہیں، ان سے مدد مانگی جاتی ہے، ان سے اولاد طلب کی جاتی ہے ، رزق میں کشادگی ، مصائب و آفات سے نجات اور بیماریوں سے شفا طلب کی جاتی ہے کیا یہ مشرکانہ اعمال نہیں ہیں؟!!!
[1] نسائی: ۲۳۲.