کتاب: روشنی - صفحہ 77
الموت۔))[1]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی ، تو خود روئے اور اپنے گرد وپیش کے لوگوں کو رلایا اور فرمایا: میں نے اپنے رب سے ان کے لیے استغفار کرنے کے حق میں اجازت چاہی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی، اور میں نے اس سے ان کی قبر کی زیارت کے بارے میں اجازت طلب کی تو اس نے مجھے اجازت دے دی، سو قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ موت کی یاد دلاتی رہتی ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ موت آخرت کا پہلا مرحلہ ہے ، اس دنیا میں آنکھیں بند ہوتے ہی انسان کے سامنے آخرت کا دروازہ کھل جاتا ہے، لیکن دنیا اور آخرت کے درمیان ایک عبوری مرحلہ آتا ہے جس کو ’’برزخ‘‘ کہتے ہیں، اس سے ہر انسان کو گزرنا ہے ، انسان قبر میں جو وقت گزارتا ہے وہ برزخ ہی ہے جس میں وہ دنیاوی اعمال کی جزا اور سزا سے کمتر درجے میں دوچار ہوتا ہے، اسی کو عذاب قبر یا نعیم قبر کہتے ہیں۔عالم برزخ میں انسان کا اس دنیا سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ جاتا، لیکن اس دنیا کی زندگی میں جو چیزیں اس کے لیے غیب تھیں ان میں سے بعض چیزیں ظہور پذیر ہو جاتی ہیں ، مثلاً: وہ فرشتوں سے باتیں کرنے لگتا ہے ، ان کو مختلف شکلوں میں دیکھ سکتا ہے اور عذاب و نعیم آخرت کے اثرات محسوس کرنے لگتا ہے۔
موت اور آخرت میں اسی تعلق کی وجہ سے بعض حدیثوں میں قبروں کی زیارت کو موت کی یاددہانی کا اور بعض میں آخرت کی یاددہانی کا ذریعہ یا محرک بتایا گیا ہے اور ہر حدیث میں عام قبروں کا ذکر آیا ہے اور زیارت کے لیے انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو منتخب کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے اور نہ ان کی قبروں کی زیارت کی کوئی فضیلت ہی بیان کی گئی ہے، بلکہ ابتدائے اسلام میں قبروں کی زیارت سے روکنے اور بعد میں اس کی اجازت دینے میں مضمر یہ حکمت بآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ انبیاء اور صلحاء کی قبروں کی زیارت سے مشرکانہ عقائد کے زندہ ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے ، کیونکہ سابقہ اقوام کی سیرت اور اُمت مسلمہ سے نسبت کا دعویٰ کرنے
[1] مسلم: ۹۷۶۔۱۰۸.