کتاب: روشنی - صفحہ 75
ذریعہ قرار دینا درست ہوتا، لہٰذا مولانا زکریا صاحب کا یہ فرمانا: ’’تمام مسلمانوں کے نزدیک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اہم ترین نیکیوں میں اور افضل ترین عبادات میں ہے اور اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے لیے کامیاب ذریعہ اور پُر اُمید وسیلہ ہے اور اس کا درجہ واجبات کے قریب ہے۔‘‘ مردود ، ناقابل تسلیم اور ناقابل عمل ہے ، کیوں؟ اس لیے کہ کسی عمل کے اہم تر نیکی اور افضل ترین عبادت ہونے سے قطع نظر اس کے معمولی نیکی اور کمتر عبادت ہونے کے لیے بھی کتاب و سنت سے دلیل درکار ہے۔ کسی امام ، یا عالم کا وہ کسے باشد کوئی قول یا دعویٰ کسی غیر منصوص عمل کو جائز بھی نہیں بنا سکتا ، اس کو اہم ترنیکی اور افضل تر عبادت بنانا تو دُور کی بات ہے۔ درحقیقت بت پرستی کی جڑ اور بنیاد پرستی ہے اور قبر پرستی نے بزرگوں اور اکابر کی بے جا اور مبالغہ آمیز عقیدت کی کوکھ سے جنم لیا ہے، اسی سبب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے ابتدائی سالوں میں قبروں کی زیارت سے منع فرما دیا تھا، پھر جب دلوں میں عقیدۂ توحید رچ بس گیا اور اس کی جڑیں گہری اور مضبوط ہو گئیں تو آپ نے اس غرض سے قبروں کی زیارت کی اجازت دے دی کہ قبریں دنیوی زندگی کی ناپائیداری کی نہایت واضح اور پر تاثیر دلیل ہیں۔ اس تناظر میں قبروں کی زیارت صرف مباح اور جائز ہے، مستحب، سنت اور واجب نہیں اور چونکہ قبروں کی زیارت کا مقصد وحیدموت اور آخرت کی یاد تازہ کرتے رہنا ہے ، لہٰذا مسلمانوں اور مشرکوں دونوں کی قبروں کی زیارت ایک ہی حکم رکھتی ہے اور احادیث میں انبیاء اور صلحائے اُمت کی قبروں کو عبادت گاہوں اور سجدہ گاہوں میں تبدیل کر دینے کی جس سختی سے مذمت کی گئی ہے ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اپنی قبر مبارک کو عید گاہ ، جشن گاہ اور سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا ہے اور خود اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا فرمائی ہے کہ وہ آپ کی قبر کو ’’ بت‘‘ بنائے جانے سے محفوظ رکھے، ان تمام باتوں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت مرغوب فیہ نہیں ہے اور صرف انہی لوگوں کے لیے جائز ہے جن سے کسی مشرکانہ عمل کے ارتکاب کا احتمال یا امکان نہ ہو۔