کتاب: روشنی - صفحہ 74
اوپر کی وضاحتوں کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کہنا یا قرار دینا تعبیراً اور شرعاً باطل اور مردود ہے او رعملاً ناممکن اور محال ہے ، کیونکہ اس کے لیے زائر او رمزور دونوں کا اس دنیاوی زندگی سے متمتع ہونا ضروری ہے ، جب کہ کتاب و سنت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں ۔ مولانا زکریا صاحب نے ’’ چند حضرات کے علاوہ جن کا خلاف کچھ معتبر نہیں ‘‘ فرما کر جن لوگوں کو غیر معتبر قرار دیا ہے، درحقیقت و صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین ، تمام ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ ہیں اور جن لوگوں کے لیے ’’ بالاتفاق تمام مسلمانوں‘‘ کی تعبیر اختیار کی ہے وہ صرف صوفیا ہیں، اب یہ فیصلہ کرنا قارئین کرام کا کام ہے کہ ان دونوں میں کس گروہ کا عقیدہ و عمل اسلامی تعلیمات کا ترجمان ہے اور کس کا نہیں؟ اوپر صحابۂ کرام کے مقام و مرتبے کے بارے میں مختصراً جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی روشنی میں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ پاک میں آپ کی خدمت میں حاضری، آپ کی زبانِ مبارک سے قرآن و حدیث سننے اور آپ کی زیارت کے فضائل و برکات کا مسلمانوں میں کوئی بھی مخالف نہیں رہا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ وہی قبر مبارک کی زیارت تو پہلی بات یہ کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں، بلکہ آپ کی قبر مبارک کی زیارت ہے اور دونوں زیارتوں میں زبان اور شرع کے اعتبار سے جو فرق ہے اس کی وضاحت گزر چکی ہے ، لہٰذا دونوں میں خلط ملط کر کے لوگوں کو فریب دینا شرعاً مذموم فعل ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو لوگ مسجد نبوی میں حاضری دیں ان کے لیے ’’قبر مبارک‘‘ کی زیارت کی مشروعیت بھی علمائے اسلام کے درمیان کبھی مختلف فیہ نہیں رہی ہے، کیونکہ زیارت قبور کے بارے میں جو احادیث الصادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ان کے عموم میں قبر مبارک کی زیارت بھی شامل ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر مبارک کی زیارت کا اشارتًا بھی کوئی حکم نہیں دیا ہے کہ دین میں اس زیارت کی کوئی خصوصیت ہوتی اور اس کو تقرب الی اللہ کا