کتاب: روشنی - صفحہ 73
دعویٰ مردود ہے ، وہیں اپنے اس دعوے کی وجہ سے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
صاحب فضائل اعمال نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ چند حضرات کے علاوہ جن کا خلاف کچھ معتبر نہیں بالاتفاق تمام مسلمانوں کے نزدیک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اہم ترین نیکیوں اور افضل ترین عبادات میں ہے اور اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے لیے کامیاب ذریعہ اور پُر اُمید وسیلہ ہے‘‘ صوفیانہ بَڑ کے سوا کچھ نہیں۔
یادر رہے کہ مولانا محمد زکریا صاحب نے ’’زیارت قبر مبارک‘‘ کے بجائے مطلق ’’زیارت‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے انہوں نے ’’قبر مبارک کی زیارت‘‘ ہی مراد لی ہے ، لیکن ان کا ایسا کرنا استعمالِ زبان اور شرع دونوں اعتبار سے غلط ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ عربی زبان میں زَارَ یَزُوْرُ زَوارًا وَزِیَارَۃً کے معنی ہیں’’ کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے پاس جا کر اس سے ملنا اور ملاقات کرنا۔‘‘ معلوم ہوا کہ زائر اور مزور دونوں کا بقید حیات ہونا ضروری ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی شخص کے انتقال یا رحلت کے بعد خود اس کی زیارت کرنا یا اس سے ملاقات کرنا ممکن نہیں ہے، البتہ اس کی قبر یا مدفن کی زیارت ممکن ہے ، لیکن اس کے لیے جو تعبیر اختیار کی جائے گی وہ ’’ فلاں کی قبر کی زیارت یا فلاں کے مدفن کی زیارت‘‘ ہے، یعنی قبر یا مدفن کی صراحت ضروری ہے، اگر کوئی مراد تو قبر کی زیارت لے ، لیکن اس کی تعبیر ان الفاظ میں کرے کہ ’’میں نے فلاں کی زیارت کی ‘‘ تو یہ غلط بیان ہوگی۔
۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ پاک میں بحالت ایمان آپ سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے کو صحابیت سے تعبیر کیا جاتاہے اور یہ شرف حاصل کرنے والا صحابی کہلاتا ہے اور صحابہ کا گروہ انبیاء علیہم السلام کے بعد اللہ کے بندوں میں سب سے مقدس گروہ ہے، اس جماعت میں اُن خوش نصیبوں کا شمار ہوتا ہے جن کو رسول اکرم فداہ ابی و اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر وفات تک کا کوئی زمانہ ملا اور وہ آپ پر ایمان لایا اور حالتِ ایمان ہی میں اس کی وفات ہوئی۔ رضی اللّٰہ عنہ و ارضاہ۔