کتاب: روشنی - صفحہ 72
نیت کرنی چاہیے اور اس قول پر اس حدیث کو دلیل لانا کہ ’’ کجاوے نہ کسے جائیں مگر تین مسجدوں کی جانب۔‘‘ سو یہ قول مردود ہے، اس لیے کہ یہ حدیث کہیں بھی ممانعت پر دلالت نہیں کرتی، بلکہ صاحب فہم اگر غور کرے تو یہی حدیث ’’بدلالۃ النص‘‘ جواز پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ جو علت مساجد ثلاثہ کے دیگر مسجدوں اور مقامات سے مستثنیٰ ہونے کی قرار پاتی ہے وہ ان مساجد کی فضیلت ہی تو ہے اور یہ فضیلت زیادتی کے ساتھ ’’ بقعہ شریفہ‘‘ میں موجود ہے، اس لیے کہ وہ حصۂ زمین جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضائے مبارکہ کو ’’مس‘‘ کئے ہوئے ہے علی الاطلاق افضل ہے، یہاں تک کہ کعبہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔‘‘ [1] کیا کتاب وسنت کی روشنی میں مذکورہ بالا عبارتیں صحیح ہیں؟ جواب:…سائل نے جن دو بزرگوں کی کتابوں سے نقل کر کے مذکورہ بالا عبارتیں بھیجی ہیں، ان کا شمار اس جماعت کے محدثین میں ہوتا ہے جس سے ان کا تعلق تھا۔ پہلے بزرگ مولانا محمد زکریا صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کو افضل ترین عبادت قرار دیا ہے اور اس دعویٰ کی دلیل میں قرآن پاک کی کوئی آیت یا کوئی صحیح حدیث پیش کرنے کے بجائے ملا علی قاری کا قول پیش کیا ہے، جب کہ ان کو اتنی بات تو معلوم رہی ہو گی کہ جس عمل کا شمار افضل ترین عبادتوں میں ہوتا ہے اس کا ماخذ صرف اور صرف قرآن و حدیث ہے، زید و عمرو کے اقوال نہیں۔ اور دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا محدث، فقیہ، قطب عالم یا غوث اعظم اس بات کا مجاز ہر گز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے عمل کو اہم ترین نیکی اور افضل ترین عبادت قرار دے جس کو اللہ و رسول نے یہ حیثیت نہ دی ہو ، اسی طرح کتاب و سنت میں جس عمل کو عبادت یا تقرب الٰہی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہو اس کو عبادات کے دائرے سے نکالنے کا مجاز بھی کوئی مسلمان نہیں ہے ، اگر کوئی اس حق کا دعویٰ کرتا ہے تو جہاں اس کا یہ
[1] ص: ۳۶، ۳۷.