کتاب: روشنی - صفحہ 70
لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ اپنی حیاتِ پاک میں آپ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسا نہیں کرواتے تھے ، تو وفات پاجانے کے بعد اس کی حوصلہ افزائی کیسے کرنے لگے؟
۲۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دفن کیے جانے سے متعلق موصوف نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے منسوب جو جھوٹا واقعہ نقل کیا ہے اس پر حافظ سیوطی کے نکارت کا حکم نقل کرنے کے بعد آپ کا یہ فرمانا کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ محدثانہ حیثیت سے اس کے منکر ہونے کے باوجود اس کی تاریخی حیثیت تو باقی ہی ہے۔‘‘ حالانکہ جو واقعہ محدثانہ معیار پر منکر قرار پائے وہ ناقابل اعتبار ہوتا ہے اور اس کی تاریخی اور دینی کوئی بھی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔
معلوم رہے کہ اگر حافظ سیوطی نے فضائل و مناقب کے باب میں کسی روایت یا واقعہ کو صرف ضعیف ہی مان لیا ہو، وہ اس قابل بھی نہیں رہ جاتا کہ اس کو زبان یا قلم سے بیان کیا جائے اس تناظر میں جو روایت ان کے نزدیک منکر ہو اس کا حال معلوم ہے۔
میں نے اوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پا جانے کے مسئلے کو قرآن و حدیث کی روشنی میں جذبات سے پاک ہو کر جس طرح بیان کر دیا ہے اس کے بعد آپ کو زندہ ماننا خود قرآن و حدیث کا انکار ہے اور جب یہ ایک مسلمہ اسلامی عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہیں ہیں تو پھر کوئی ایسا واقعہ قابل قبول نہیں ہو سکتا جس سے آپ کے زندہ ہونے کا کوئی اشارہ ملتا ہو، یہی صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین اور ائمہ حدیث و فقہ کا متفقہ عقیدہ رہا ہے اور جب قرآن و حدیث نے یہ بات طے کر دی کہ قبر مبارک میں آپ کو دنیوی زندگی حاصل نہیں ہے ، اگر کوئی زندگی حاصل ہے تو وہ برزخی زندگی ہے جس کی کہنہ اور حقیقت سے کوئی فرد بشر واقف نہیں ہے اور یہ برزخی زندگی اس دنیوی زندگی سے ایسی کوئی مشابہت اور مماثلت نہیں رکھتی کہ اس دنیا کے لوگ آپ تک اپنی کوئی بات پہنچا سکیں یا آپ ان کی کوئی بات سن کر اس کا جواب دے سکیں۔