کتاب: روشنی - صفحہ 69
ہوا تو مجھے اپنے سرہانے بٹھا کر فرمایا کہ جن ہاتھوں سے تم نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا تھا، انہی ہاتھوں سے مجھے غسل دینا اور خوشبو لگانا اور مجھے اس حجرہ کے قریب لے جا کر جہاں حضور کی قبر ہے اجازت مانگ لینا۔ اگر اجازت مانگنے پر حجرہ کا دروازہ کھل جائے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ مسلمانوں کے عام قبرستان بقیع میں دفن کر دینا۔‘‘ حضرت علی فرماتے ہیں: ’’جنازہ کی تیاری کے بعد سب سے پہلے میں آگے بڑھا اور میں نے جاکر عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ ابوبکر یہاں دفن ہونے کی اجازت مانگتے ہیں‘‘ تو میں نے دیکھا کہ یک دم حجرہ کے کواڑ کھل گئے اور ایک آواز آئی کہ ’’دوست کو دوست کے پاس پہنچا دو۔‘‘ علامہ سیوطی نے خصائص کبریٰ میں محدثانہ حیثیت سے اس روایت کو منکر بتایا ہے، لیکن تاریخی حیثیت تو باقی ہے ہی۔‘‘ [1]
فضائل اعمال کے مصنف کے نام کے ساتھ امام اور محدث کے القاب بھی لکھے جاتے ہیں اور خود یہ کتاب موصوف نے مسلمانوں کی دینی رہنمائی کی غرض سے لکھی ہے ، مگر انہوں نے اس میں اپنے ان دونوں گراں قدر القاب کی کوئی رعایت نہیں کی ہے اور اس کو اسلامی عقائد سے متصادم جھوٹی اور موضوع روایات اور ناقابل قبول اور گمراہ کن واقعات اور قصوں سے بھر دیا ہے، اس طرح فضائل اعمال مسلمانوں کی ہدایت و رہنمائی کے بجائے ان کی ضلالت و گمراہی کا ذریعہ بن گئی ہے خاص طور پر مسلمانوں کا نوجوان اور دینی معلومات سے خالی الذہن اور اسلامی عقائد سے نا واقف طبقہ اس کتاب کے ذریعے صحیح اسلام سے دُور ہوتا جا رہا ہے۔
سیّد احمد رفاعی سے متعلقہ واقعہ کے جھوٹے اور من گھڑت ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کی درخواست پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر مبارک
سے اپنا دست مبارک باہر نکالا اور اس کو انہوں نے چوما ، اس عمل کے ناممکن الوقوع اور محال ہونے سے قطع نظر اس اعتبار سے بھی یہ واقعہ سیرت پاک کے خلاف ہے کہ آپ نے ایسا اس لیے کیا تاکہ وہ آپ کے دست مبارک کو بوسہ دیں اور چومیں، کیونکہ سیرت پاک سے واقف
[1] فضائل حج ، ص: ۱۳۹.