کتاب: روشنی - صفحہ 68
۵۵۵ ھ میں حج سے فارغ ہو کر زیارت کے لیے حاضر ہوئے اور قبر اطہر کے مقابل کھڑے ہوئے تو یہ دو شعر پڑھے:
فی حالۃ البعد روحی کنت أرسلہا
تُقَبِّل الأرضَ عنی وہی نائبتی
وہذہ دولۃ الأشباح قد حضرت
فاحدُد یمینَک کی تحظی بہا شفتی
’’دُوری کی حالت میں میں اپنی روح کو بھیجا کرتا تھا اور میری نائب بن کر آستانہ مبارک چومتی تھی، اب جسموں کی حاضری کی باری ہے اپنا دست مبارک بڑھایئے تاکہ میرے ہونٹ اسے چومیں۔‘‘
اس پر قبر مبارک سے دست مبارک باہر نکلا اور انہوں نے اس کو چوما، کہا جاتا ہے کہ اس وقت تقریباً نوے ہزار کا مجمع مسجد نبوی میں تھا، جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا اور حضور کے دست مبارک کی زیارت کی۔‘‘ [1]
۱۔ عبرت کا مقام ہے کہ ۵۵۵ ھ میں مسجد نبوی کے اس حصے میں جس میں قبر مبارک ہے، بیک وقت دس ہزار آدمیوں کی بھی گنجائش نہیں رہی ہو گی، اس صورت میں اس میں ۹۰ ہزار افراد کس طرح سما گئے؟
۲۔ قبر مبارک چاروں طرف سے دیواروں سے گھری ہوئی ہے ، اگر بفرض محال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک قبر مبارک سے باہر بھی نکالا ہوتا تو چند افراد سے زیادہ اس کے دیکھنے والے نہ ہوتے۔ ۹۰ ہزار کا مجمع اس جگہ آیا کیسے اور دست مبارک کے مشاہدہ سے سر فراز کس طرح ہوا، ایسا تو اس وقت بھی ممکن نہ تھا جب قبر مبارک کھلے میدان میں ہوتی۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰا اُولِی الْاَبْصَارِ۔
۳۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ جب حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت قریب
[1] ص: ۱۳۰، ۱۳۱فضائل حج.