کتاب: روشنی - صفحہ 67
شرف عظیم سے وہ محدثین اور فقہائے اُمت نوازے جاتے جو اس دین کے پاسبان، عالم و فاضل اور حقیقی معنوں میں صالح و متقی اور عابد و زاہد تھے، مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی محدث یا فقیہ نے ایسا دعویٰ کیا ہو اور جو دعویٰ باطل ہو وہ دعویٰ اللہ کا کوئی صالح بندہ کر بھی کیسے سکتا تھا۔
حاجی امداد اللہ صاحب نے قبر مبارک سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے اور آپ کو دیکھنے کا جو دعویٰ کیا ہے اس طرح کا دعویٰ ایک صوفی بزرگ سیّد شاہ ابو سعید نے بھی کیا ہے۔ یہ واقعہ مولانا علی میاں نے اپنی مشہور کتاب تاریخ دعوت و عزیمت جلد پنجم میں نقل کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’ سیّد شاہ ابو سعید رحمہ اللہ ایک باوقار، کریم النفس، کثیر الاحسان، مہمان نواز اور غریب پرور بزرگ تھے، رفقاء کے ساتھ آپ نے حجاز کا سفر کیا اور ۲۸ ربیع الاوّل ۱۱۸۷ھ کو مکہ مکرمہ پہنچے اور حج سے مشرف ہو کر مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور وہاں چھ ماہ مقیم رہے، ’’ مصابیح‘‘ کی شیخ ابو الحسن سندھی صغیر سے سماعت کی، ایک بار مرقد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حجرۂ مبارکہ سے باہر جلوہ افروز ہیں، پہلے آپ کے دوش مبارک ظاہر ہوئے ، پھر جسد مطہر ظاہر ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سامنے تشریف لا کر متبسم ہوئے۔‘‘
آپ کے مرید و مجاز شیخ امین بن حمید علوی کاکوروی اپنے رسالے میں لکھتے ہیں کہ:
’’شیخ ابو سعید فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں بچشم سر دیکھا ہے۔‘‘ [1]
ان واقعات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درج ذیل ارشاد پیش کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے:
((کفی بالمرء کذبًا أن یحدث بکل ما سمع۔))[2]
’’ایک آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے بیان کرتا پھرے۔‘‘
اس بحث کے اختتام سے قبل فضائل اعمال سے دو واقعات نقل کر دینا چاہتا ہوں:
۱۔ سیّد احمد رفاعی مشہور بزرگ اکابر صوفیا میں سے ہیں، ان کا قصہ مشہور ہے کہ جب
[1] ص: ۳۹۳.
[2] مقدمہ صحیح مسلم، حدیث: ۵.