کتاب: روشنی - صفحہ 65
سائلین الی اللہ اور عارفین باللہ میں شمار کرتی ہے، اس کی جرأتوں کا یہ حال ہے کہ بلاخوف و خطر اور جواب دہی کے کسی احساس کے بغیر ارشاد و ہدایت کے باب میں بھی ایسی باتیں بھی بر ملا کہہ دینے سے پس و پیش نہیں کرتی جو نہ صرف یہ کہ بے بنیاد ہوتی ہیں، بلکہ اسلام کے توحیدی مزاج سے متصادم بھی ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب حکیم الامت اور امام المجددین کو یہ اعتراف ہے کہ قطب العالم کا ’’عبداللہ‘‘ نام عالم الغیب میں ہوتا ہے۔ عالم شہود میں نہیں، توان کو اس کا علم کس طرح ہوا؟ وہ نبی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بذریعہ وحی اس کا علم دے دیا، البتہ وہ دل اور اللہ کا مقرب بندہ ہو سکتے تھے، مگر جہاں کسی دل اور مقرب بندے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کا ولی اور اس کا مقرب بندہ ہے، وہیں ولایت اور تقرب الی اللہ کی صفت سے وہ شخص موصوف نہیں ہو سکتا جو اقطاب یا غیر اقطاب کے ربوبیت کی کسی ادنیٰ صفت سے بھی موصوف ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو، ایسی صورت میں بذریعہ کشف بھی عالم غیب کی کسی بات سے ان کے واقف ہو جانے کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اقطاب اور دوسری صفات سے موصوف جن صوفیا کے وجود کا عقیدہ رکھا جاتا ہے۔ وہ سراسر من گھڑت اور خود ساختہ عقیدہ ہے، اس لیے باطل اور مردود ہے۔ اقطاب کے صوفیانہ عقیدے پر مجھے یہ تبصرہ ارواح ثلاثہ میں مذکور جھوٹے اور اسلامی تعلیمات سے متصادم واقعہ کی وجہ سے کرنا پڑا، ورنہ ’’ مراقبہ‘‘ کے موضوع سے اس کا براہِ راست تعلق نہیں تھا۔ اب میں حاجی امداد اللہ صاحب کے اس دعوے کی طرف واپس آتا ہوں کہ روضہ میں ان کے مراقب ہونے کے اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بصورت ’’ میانجیو‘‘ قبر مبارک سے باہر تشریف لائے اور ان کے سر پر عمامہ رکھا ، اس موقع پر مندرجہ ذیل سوال پیدا ہوتا ہے: بفرض محال اگر اس واقعہ کے ظہور پذیر ہونے کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ سوال باقی رہتا ہے کہ جب ان کے سامنے ظاہر ہونے والا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اور حلیہ نہیں رکھتا تھا تو انہوں نے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں سمجھ لیا ، کیوں وہی شخص نہیں سمجھا جو وہ فعلاً تھا؟ اس