کتاب: روشنی - صفحہ 64
دوسری بات یہ کہ ایک سلیم الخلقت پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں بھی کسی انسان کو یہ نہیں معلوم ہے اور نہ کسی ذریعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ بڑا ہونے کے بعد کیا بنے گا، تیسری بات یہ کہ قطب الاقطاب ، اغواث اور اوتار وغیرہ صوفیا کی خود ساختہ اصطلاحیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور تصو ف کی کتابوں میں جو یہ تحریر ہے کہ قطب العالم ایک ہوتا ہے، اس کو قطب العالم ، قطب اکبر ، قطب الارشاد ، قطب الاقطاب اور قطب المدار بھی کہتے ہیں، اور ’’عالم غیب‘‘ میں اس کا نام عبداللہ ہوتا ہے ، اس کے دو وزیر ہوتے ہیں جو امامین کہلاتے ہیں؛ و زیر یمین کا نام عبدالملک اور وزیر یسار کا نام عبدالرب ہوتا ہے۔ اور ۱۲ قطب اور ہوتے ہیں، سات تو سات اقلیموں میں رہتے ہیں، ان کو ’’قطب اقلیم‘‘ کہتے ہیں اور پانچ یمن میں، ان کو ’’قطب ولایت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ عدد تو اقطاب معینہ کا ہے اور غیر معین ہر شہر اور ہر قریہ میں ایک قطب ہوتا ہے۔ [1] نام نہاد حکیم الامت نے جس دیدۂ دلیری کے ساتھ من گھڑت ’’اقطاب‘‘ کی یہ تفصیلات بیان فرمائی ہیں، ان تفصیلات کے ساتھ اور اتنی جرأت سے تو ایک ایسا عام مسلمان جسے اپنے قول و فعل کے بارے میں جواب دہی کا احساس ہو ، قرآن و حدیث کی کسی نص پر مبنی کوئی بات بھی نہیں کہہ سکتا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ صریح اور دو ٹوک حکم ہے کہ : ﴿ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴾ (الاسراء: ۳۶) ’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو درحقیقت آنکھ ، کان اور دل سب کے بارے میں باز پرس ہو گی۔‘‘ یہ حکم الٰہی کسی بھی سچے مومن کو دین سے متعلق کوئی بات زبان سے نکالنے سے قبل سوبار سوچنے اور غورو فکر کرنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ مبادا وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دے جو بظاہر منصوص ہونے کے باوجود اس مفہوم اور معنی میں نہ ہو جو وہ سمجھا ہے، مگر وہ قوم جو اپنے آپ کو
[1] شریعت و طریقت ، ص: ۳۳۹.