کتاب: روشنی - صفحہ 63
مراقبہ کرنے والے زندہ صوفی کو یہ خبر دیتے ہیں کہ ان کی بیوی حاملہ ہے اور وہ جو بچہ جنے گی وہ قطب الاقطاب ہو گا، جب کہ قرآن یہ بتا رہا ہے کہ رحم مادر میں جو کچھ ہے اس کی تفصیلات کا علم صرف اللہ کو ہے ، یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ کسی عورت کے حاملہ ہونے کا علم وہ علم غیب نہیں ہے جس سے صرف اللہ تعالیٰ موصوف ہے اس طرح جب رحم مادر میں جنین کو شکل و صورت عطا کر دی جاتی ہے اور اس کے اعضائے تناسل کی تخلیق کر دی جاتی ہے تو الٹراساؤنڈ کے ذریعہ جنین کے نر یا مادہ ہونے کو معلوم کیا جا سکتا ہے جو رحم مادر میں نطفہ کے ۱۲۰ دنوں کے بعد کا مرحلہ ہے اس وقت مخصوص فرشتہ اللہ کے حکم سے اس میں روح پھونک دیتا ہے اور اس کی رزق ، اعمال ، موت اور اس کے نیک بخت یا بدبخت ہونے کو لکھ دیتا ہے۔[1] سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد مبارک: ﴿وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾(لقمان:۳۴) ’’اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے۔‘‘میں جو ’’ ما ‘‘ آیا یہ اسم موصول ہے جو اپنے مفہوم میں مبہم ہے جو اس اسم کی خاصیت ہے اوراس سے محسوسات نہیں،بلکہ معنویات مراد ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو یہ نہیں معلوم کہ رحم مادر میں جو نطفہ قرار پکڑتا ہے وہ کیسا انسان بنے گا اس کی مالی حالت کیا ہو گی وہ کتنی عمر پائے گا، اس کے اعمال کیا ہوں گے اور وہ کن صفات سے مو صوف ہو گا، رہی جنین کی صفت اور جنس تو نطفہ کے گوشت کی بوٹی بن جانے اور اس کو شکل و صو رت عطا کر دیے جانے اور اس کے اعضائے صنفی کی تخلیق کے بعد طبی آلات کے ذریعہ یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ۔ موقع کی مناسبت سے مجھے یہ تفصیلات بتانی پڑیں ورنہ میرے موضوع سے ان کا تعلق نہیں تھا۔ مذکورہ وضاحتوں کی روشنی میں رحم مادر میں نطفہ کے قرار پکڑنے کے بعد قبر میں مدفون صوفی کی طرف یہ بات منسوب کرتا ہے کہ یہ نطفہ قطب الاقطاب بنے گا، اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ایسا کہنے والا کوئی مؤحد مسلمان نہیں ہو سکتا۔ پہلی بات تو یہ کہ مرجانے کے بعد کوئی بھی انسان زندہ انسانوں سے کوئی بات نہیں کہہ سکتا، چاہے وہ رسول ہی کیوں نہ ہو،
[1] سورۃ الحج : ۵۔ سورۃ المؤمنون: ۱۲،۱۴۔ بخاری: ۶۵۹۴۔ مسلم: ۲۶۴۳.