کتاب: روشنی - صفحہ 62
لہٰذا اس کے خوف اور خشیت سے اس کا دل کبھی خالی نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ جہاں مومن کے دل کو ’’ مراقبہ‘‘ سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہیے، خصوصیت کے ساتھ شعائرِ عبادات کی ادائیگی کے وقت اور ذکر و فکر کے موقع پر وہیں اس مراقبے کے لیے کوئی وقت اور جگہ متعین نہیں ہے اور نہ اس مراقبے کی کوئی خاص شکل اور وضع شریعت نے مقرر کی ہے۔ لیکن چونکہ صوفیا کی شریعت ان کی خانہ ساز اور ان کے ذوق و پسند کی پیداوار ہے، اس لیے جہاں انہوں نے مراقبہ کی خاص شکل متعین کر لی ہے، مثلاً: دونوں گھٹنوں کے درمیان سر کو جھکا کر غور و فکر کرنا اور سوچ بچار اور دھیان پر زور دینا، دوسرے لفظوں میں صوفیا کا مراقبہ ہندوؤں کے ’’یوگا‘‘ کی ایک شکل ہے۔ پھر صوفیا عام طور پر مراقبے اپنے نام نہاد بزرگوں کی قبروں کے پاس بیٹھ کر کرتے ہیں اور اپنے دین اور دنیوی معاملات میں ان سے استمدداد کرتے ہیں ،کیونکہ ان کے بارے میں جہاں ان کا یہ اعتقاد ہے کہ وہ ان کے احوال سے واقف ہیں وہیں وفات پاجانے کے بعد بھی کائنات کے اُمور میں ان کے تصرفات سے جاری رہتے ہیں، بطورِ مثال درج ذیل اواقعہ میرے اس دعوے پر دلیل ہے: ’’شاہ ولی اللہ صاحب بطن مادر میں تھے تو ان کے والد ماجد شاہ عبدالرحیم صاحب ایک دن خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہ اللہ کے مزار پر حاضر ہوئے اور ’’مراقب‘‘ ہوئے اور ادراک بہت تیز تھا، خواجہ صاحب نے فرمایا کہ تمہاری زوجہ حاملہ ہے اور اس کے پیٹ میں قطب الاقطاب ہے، اس کا نام قطب الدین احمد رکھنا ……‘‘ [1] غور فرمایئے کہ ایک صاحب ایک دوسرے صوفی کی قبر کے پاس مراقبہ فرما رہے ہیں، اور زندہ صوفی اور مردہ صوفی کے درمیان رابطہ قائم ہو جاتا ہے اور قبر میں مدفون صوفی صاحب
[1] ارواحِ ثلا ثہ ، ص: ۲۳.