کتاب: روشنی - صفحہ 61
شمس تبریزی سے اپنے عشق و محبت کے واردات قلبی نظم کیے ہیں، ایسی صورت میں اس کے مضامین قرآن سے کس طرح ماخوذ ہو سکتے ہیں اور اگر ہوتے بھی تو کیا اس کی وجہ سے اس کو ’’قرآن کہنا‘‘ صحیح ہو سکتا ہے!! مذکورہ بالا وضاحتوں کی روشنی میں کیا یہ دعویٰ قابل قبول ہو سکتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں موصوف کو ایک صوفی بزرگ کے حوالہ کر کے ان کے لیے تصوف کی راہ کو پسند فرمایا تھا؟ موصوف کے جس مراقبے کا ذکر سائل نے اپنے سوال میں کیا ہے اس پر تبصرہ مراقبہ کی حقیقت بیان کر دینے کے بعد مناسب رہے گا۔ مراقبہ یہ لفظ رَاقَبَ یُراقِبُ کا مصدر ہے، ثلاثی مجرد سے اس کے تین مصادر آتے ہیں: رَقْبٌ ، رَقُوْبٌ اور رَقابۃٌ ، رَقَبَ یَرْقَبُ رَقْبًا کے معنی ہیں:’’ حفاظت کرنا اور نگرانی کرنا‘‘ اسی سے الرقیب بنا ہے جو اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے، جس کے معنی ایسے حافظ اور نگہبانی کے ہیں جو ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز سے باخبر ہے اور دنیا کی کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا﴾(النساء:۱) ’’درحقیقت اللہ تم پر نگران ہے۔‘‘اور سورۃ المائدہ میں عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر کے موقع پر آیا ہے کہ وہ روز قیامت اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے …﴿فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ ﴾ (المائدہ: ۱۱۷)’’ جب تو نے مجھے اُٹھا لیا تو تو ان پر نگراں تھا۔‘‘ اور مراقبہ کے معنی ہیں کہ دل میں اس احساس اور خیال کو زندہ رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ تمام ظاہری اور باطنی اعمال اور حرکات سے واقف ہے اور بندے کے تمام احوال اس کے علم میں ہیں، حتی کہ جو خیالات اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ان سے بھی وہ واقف ہے اور جب اللہ کے علم و احاطے کے بارے میں اس کا یہ عقیدہ ہے تو پھر اس پر یہ لازم ہے کہ وہ جو عمل بھی انجام دے اس ایمان و یقین کے ساتھ انجام دے کہ اللہ تعالیٰ اس کا علم رکھتا ہے،