کتاب: روشنی - صفحہ 60
’’یہ علماء چار گروہ ہیں: (۱)مفسرین، (۲)محدثین ، (۳)فقہاء ، (۴)صوفیا۔ محدثین ظاہر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لیتے ہیں کہ حدیث بنیادِ دین اور محدثین خادم و محافظ دین ہیں اور ان کی سعی بلیغ تنقیح و تنقید احادیث میں رہتی ہے کہ احادیث صحیح کو موضوع و ضعیف سے ممتاز کرتے ہیں اور متعصب غیر مقلد کہ فی زمانہ دعویٔ حدیث دانی و عمل بالحدیث کرتے ہیں، حاشا و کلا کہ حقانیت سے بہرہ نہیں رکھتے تو اہل حدیث کے زمرے میں کب شامل ہو سکتے ہیں، بلکہ ایسے لوگ دین کے راہزن ہیں ، ان کے اختلاط سے احتیاط چاہیے اور فقہاء احادیث نبویہ کو روایۃ اصحاب حدیث سے اخذ کرتے ہیں اور درایۃ حضرت حق سے فیضان حاصل کرتے ہیں لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلیبلغ الشاہد الغائب یہ لوگ محدثین پر فضیلت رکھتے ہیں ۔‘‘ [1] ایک دوسرے مشہور صوفی بزرگ نے موصوف کے قول و فعل کی تاویل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ اس واقعہ کا لوگوں نے اس طرح حل کیا ہے کہ اس میں زیادہ مضامین قرآن شریف کے ہیں لیکن حضرت نے عجیب تفسیر فرمائی کہ بھائی قرآن سے مراد کلام الٰہی ہے اور کلامِ الٰہی کبھی وحی ہوتا ہے اور کبھی الہام ہوتا ہے، تو معنی ’’ مصرعہ‘‘ کے یہ ہیں کہ مثنوی کلام الٰہی یعنی الہامی ہے اور حضرت اس تفسیر کی بنا پر تلاوت کا لفظ استعمال فرماتے تھے۔‘‘[2] معلوم رہے کہ قرآن اس کتاب کا نام اور علم ہے جو نبی ٔ آخر محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حالت بیداری میں بذریعہ وحی نازل ہوا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کرنے والے صرف الروح الامین جبریل علیہ السلام تھے، جس کو الہام سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے اگرچہ نبی کا الہام بھی شیطانی وسوسوں سے پاک ہوتا تھا۔ جب کہ مثنوی مولانا روم کا وہ عشق نامہ یہ جس میں انہوں نے اپنے صوفی پیر و مرشد
[1] امداد المشتاق الی اشرف الاخلاق ، ص: ۳۹، ۴۰. [2] ارواحِ ثلاثہ، ص: ۲۰۷.