کتاب: روشنی - صفحہ 6
ہے ، وہ مردود ہے۔ ‘‘ صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث کے الفاظ ہیں: (( مَنْ عَمِلَ عَمَـلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ۔)) ’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم دلیل نہیں وہ مردود ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صرف اُصول ہدایت دے کر چھوڑ نہیں دیا، بلکہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو ہمارے سامنے ایک کھلی اور واضح کتاب کی طرح رکھ دیا کہ ہم اس کو نمونہ عمل بنائیں: ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ﴾ (الاحزاب:۲۱) ’’درحقیقت تمہارے لیے اللہ کے رسول کے اندر ، اس شخص کے لیے بہترین نمونہ ہے جو لقائے الٰہی اور یومِ آخرت کی کامیابی کا اُمیدوار ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔‘‘ یہ آیت کریمہ یہ بتارہی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی اور پیشوا ماننے اور بنانے والے مومن سے اس کا ایمان، اللہ کے عذاب سے اس کا خوف او ر اس کے ثواب کی اُمید یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنے لیے نمونۂ عمل اور نمونۂ تقلید بنائے، گویا دوسرے لفظوں میں اللہ و رسول پر ایمان کا جو مدعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لیے نمونۂ عمل نہیں بناتا، یا آپ کی سیرت پاک اور طریقۂ عمل کو اپنے لیے کافی نہیں سمجھتا اس کا دل اللہ کی ملاقات کے شوق اور آخرت کی کامیابی کی اُمید سے خالی ہے اور ایسا شخص مومن نہیں ہے، اگرچہ بظاہر وہ رات رات بھر نمازیں پڑھتا ہو، ہر دن روزے رکھتا ہو اور حب الٰہی اور تعلق باللہ کے دعویٰ میں عیش و عشرت کے تمام مظاہر سے کنارہ کش ہو چکا ہو اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں اپنے طریقۂ عبادت کو بیان کرنے کے بعد ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: