کتاب: روشنی - صفحہ 59
دوسرے بزرگ صوفی کے حوالہ کرنے کا جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کا مقصد یہ بیان کرنا، بلکہ ثابت کرنا ہے کہ انہوں نے تصوف کی راہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اختیار کی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کے بعد ان کے ہر سرحق ہونے میں کیا شک رہ جاتا ہے۔ چونکہ صاحب خواب نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس شکل اور حلیہ میں دیکھا تھا اور ان کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ جن بزرگ کی خدمت میں ان کی حاضری ہوئی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذاتِ مقدس ہے ، ایسی صورت میں اس خواب پر کوئی تبصرہ کرنا صحیح نہیں ہے، البتہ یہ بات مسلم ہے کہ موصوف صوفی ہونے کے علاوہ شرعی علوم سے نابلد تھے، اگرچہ اکابر صوفیا کے مطابق ’’ علم باطنی‘‘ سے بہرہ ور تھے، لیکن چونکہ یہ علم باطنی، یا علم باطن، خود ایک وہم و خیال ہے اور عالم واقعہ میں اپنا کوئی وجود نہیں رکھتا، اس لیے اس سے موصوف ہونا بجائے خود غیر معتبر ہے۔واضح رہے کہ علم باطن شیعوں کی ایجاد ہے۔
عملی طور پر موصوف عقیدۂ وحدۃ الوجود کے زبردست حامی اور داعی تھے، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور ان کی دعوتِ توحید کے صرف شدید مخالف ہی نہیں، بلکہ اس دعوت کے بہت بڑے دشمن تھے اور برصغیر کے علمائے حدیث اور کتاب و سنت پر عمل کی دعوت دینے والوں پر وہابیت کا الزام لگاکر حرمِ پاک میں ان کے داخلے پر پابندی لگوا رکھی تھی اور حرم مکی جو ہر زمانے میں مفسرین اور محدثین کا مرکز بنا رہا اور جس کے ہر ہر کونے سے قال اللہ اور قال الرسول کی صدا بلند ہوتی تھی، اس کو اپنے قیام مکہ کے زمانے میں تفسیر و حدیث کے دروس سے پاک کر کے اس میں بلا شرکت غیرے مثنوی کا درس دیتے تھے اور اس کو تلاوت سے تعبیر کرتے تھے، کیونکہ صوفیا کے حلقوں میں یہ مشہور ہے کہ مثنوی فارسی کا قرآن ہے، چنانچہ صوفیا میں ایک شعر زبانِ زد ہے:
مثنوی مولوی معنوی ھست قرآن در زبان پہلوی
موصوف من گھڑت روایت:
اختلاف العلماء رحمۃ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: