کتاب: روشنی - صفحہ 53
دینے سے عاجز ہوتے، کیونکہ بشریت و ملکیت کی خاصیتیں ایک کو دوسری سے ملنے، دیکھنے اور سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ صرف انبیاء علیہم السلام کی خصوصیت تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و توفیق سے نہ کہ اپنی ذاتی استعداد و اہلیت سے فرشتوں کو ان کی اصل شکلوں میں دیکھنے اور ان کی باتیں سننے اور سمجھنے پر قدرت رکھتے تھے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے والاآپ کے شبیہ یا مثیل کو دیکھتا ہے، آپ کی حقیقی ہستی کو نہیں دیکھتا، بایں معنی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر قبر مبارک ہی میں رہتا ہے اور روح پاک ’’ رفیق اعلیٰ‘‘ میں، اور اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی حقیقی اور اصلی شکل میں ’’ممثل‘‘ کر کے خواب دیکھنے والے خوش نصیب کو دکھاتا ہے اور چونکہ شیطان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت اور مماثلت اختیار کرنے سے عاجزہے، اس لیے جو شخص خواب میں آپ کو آپ ہی کی شکل میں دیکھتا ہے اس کا خواب سچا ، برحق اور صحیح ہے خواب پریشاں نہیں ہے۔ حدیث کا دوسرا فقرہ: ((فَسَیَرَانِیْ فِی الْیَقْطَۃِ۔)) ’’وہ مجھے بیداری میں دیکھے گا۔‘‘ احادیث میں تین طرح کی تعبیروں میں آیا ہے: یعنی اس کے علاوہ اس کی مزید دو تعبیریں بھی آتی ہیں: ((فَکَاَنَّمَا رَآنِیْ فِی الْیَقْظَۃِ )) ’’گویا اس نے مجھے بیداری میں دیکھا۔‘‘ ((فَقَدْ رَآنِیْ فِی الْیَقْظَۃِ )) ’’درحقیقت اس نے مجھے بیداری میں دیکھا۔‘‘[1] حدیث کے فقرہ ((فَسَیَرَانِیْ فِی الْیَقْظَۃِ )) کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں اور دونوں معقول لگتے ہیں۔ پہلا مفہوم یہ ہے کہ جو مجھے خواب میں دیکھے گا وہ اس کی تعبیر بھی دیکھے گا، کیونکہ یہ خواب حق ہے اور اس کے ذریعہ غیب کی بات خواب دیکھنے والے کو دکھائی گئی ہے ، اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا ہم عصر ہے جو آپ پر ایمان تو لایا مگر آپ کو دیکھنے کی سعادت نہیں حاصل کر سکا تو ایسا شخص اگر یہ خواب دیکھے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے تو وہ بیداری میں آپ کو دیکھے گا ، یعنی اگر مکہ میں ہے تو ہجرت کرے گا اور آپ کی رؤیت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرے گا۔[2]
[1] فتح الباری، ص: ۳۱۲۳، ج: ۳. [2] المنہاج، ص: ۱۴۰۸.