کتاب: روشنی - صفحہ 52
جسم و روح کے مابین اس تعلق سے آپ کو وہ دنیوی زندگی حاصل ہو جاتی ہے جو وفات سے قبل حاصل تھی، بلکہ یہ آپ کی برزخی زندگی ہی کی کیفیتوں میں سے ایک کیفیت ہے۔ اس بات کو ان احادیث سے سمجھا جاسکتا ہے جن میں یہ خبر دی گئی ہے کہ ’’میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد منکر نکیر کی آمد کے موقع پر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔‘‘[1] تو میت کے جسم میں اس کی روح واپس کر دینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس کو مرنے سے پہلے دنیا کی جو زندگی حاصل تھی وہ زندگی حاصل ہو جاتی ہے ، بلکہ جسم و روح میں اس تعلق کے باوجود بھی کوئی انسان عالم برزخ سے نکل کر اس دنیا میں واپس نہیں آسکتا، یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے، چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان کے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں خبر دی کہ انہوں نے ’’شہادت‘‘ پانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے میرے رب! تو مجھے زندہ کر دے تاکہ تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ((إنہ قد سبق منی أنہم لا یرجعون۔)) ’’یہ تو میرا فیصلہ ہو چکا ہے کہ ( مر جانے والے) دنیا میں واپس نہیں جائیں گے۔‘‘[2] اس حدیث سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ شہداء کو بھی جو زندگی حاصل ہے وہ سراسر برزخی زندگی ہے دنیوی زندگی نہیں ہے، ورنہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے دنیا میں واپسی کی درخواست نہ کرتے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے اٹل فیصلے کی خبر نہ دیتا۔ قبر میں میت اور منکر نکیر کے مابین سوال و جواب سے بھی اسی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ میت کے جسم میں روح کی واپسی اس کو دنیا کی زندگی نہیں دے دیتی ، کیونکہ اگر اس سے دنیوی زندگی حاصل ہو جاتی تو انسان منکر نکیر کو دیکھتے، ان کے سوالوں کو سمجھنے اور ان کو جواب
[1] مسند امام احمد: ۱۸۷۳۳، ۳۴، ۳۵،۱۸۸۱۵،۱۶، ۱۸۸۲۸. [2] ترمذی: ۳۰۱۰۔ ابن ماجہ: ۱۸۷، ۲۸۵۰.