کتاب: روشنی - صفحہ 51
اور ابن سیرین کے اقوال کے مقابلے میں قابل استدلال نہیں ہے، کیونکہ یہ اقوال اپنے قائلین کی جلالت شان سے قطع نظر ایک بدیہی حقیقت کے ترجمان ہیں، کیونکہ کسی انسان کی شکل اور اس کا حلیہ ہی اس کی حقیقی پہچان ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے کے باب کے تحت پہلی حدیث درج کرنے کے بعد امام ابن سیرین کا قول نقل کر کے اس امر کی جانب اشارہ کیا ہے کہ یہی ان کا بھی خیال ہے۔
حدیث کی تشریح
جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو خواب میں دیکھتا ہے ، چاہے خواب میں دیکھا جانے والا زندہ ہو یا وفات پا چکا ہو تو اس شخص کے حقیقی وجود اور حقیقی ہستی کو نہیں، بلکہ اس کے مثیل اور شبیہ کو دیکھتا ہے۔ اس تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد : ((من رآنی فی المنام)) ’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا یا جو مجھے خواب میں دیکھے گا۔‘‘ کا مطلب بھی یہی ہے کہ جس نے خواب میں میرے ہم شکل ، یا شبیہ یا مثیل کو دیکھا یا دیکھے گا، اس لیے کہ قرآن و حدیث کی تصریحات پر مبنی یہ مسلمہ اسلامی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور آپ کا جسم اطہر قبر مبارک میں مدفون ہے اور روح پاک’’ رفیق اعلیٰ ‘‘ میں ہے اور صحیح احادیث کے مطابق قیامت کے دن سب سے پہلے آپ کی قبر مبارک پھٹے گی اور آپ اس سے باہر نکلیں گے۔[1] قیامت کی آمد سے پہلے قبر مبارک سے آپ کا نکلنا، لوگوں کے خوابوں میں آنا یا مراقبوں کے نتیجے میں جسم و روح کے ساتھ لوگوں کو اپنی رؤیت یا ملاقات سے نوازنا ناممکنات میں سے ہے۔
رہیں وہ احادیث جن میں آپ کو سلام کرنے کے موقع پر آپ کے جسم مبارک میں آپ کی روح پاک کے لوٹانے کی خبر دی گئی ہے تاکہ آپ سلام کا جواب دیں تو یہ احادیث نہ تو آپ کے وفات پا جانے کے عقیدے کے خلاف ہیں اور نہ ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ
[1] مسلم: ۲۲۷۸، ۵۹۴۰.