کتاب: روشنی - صفحہ 50
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابن عباس اور ابن سیرین کے واقعات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ایک حدیث ایسی ہے جو ابن عباس اور ابن سیرین کے مذکورہ اقوال کے خلاف پڑتی ہے، یہ حدیث حافظ عمرو بن ابی عاصم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((من رآنی فی المنام فقد رآنی، فانی أُری فی کل صورۃ۔))
’’جس نے خواب میں مجھے دیکھا، اس نے مجھے ہی دیکھا ، کیونکہ میں ہر شکل میں دیکھا جاتا ہوں۔‘‘
حافظ ابن حجر نے یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’اس کی سند میں صالح مولیٰ التوأمہ شامل ہے جو ذہنی توازن بگڑ جانے کی وجہ سے ضعیف ہے اور یہ حدیث اس سے جس نے سنی ہے ذہنی توازن بگڑ جانے کے بعد سنی ہے۔‘‘ [1]
مذکورہ حدیث کی سند کے ایک راوی صالح مولیٰ التوأمہ کے ضعیف ہونے کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں جو کچھ لکھا ہے وہ ناکافی ہے ،کیونکہ اس کے ضعیف اور ساقط الاعتبار ہونے کا صرف یہی سبب نہیں تھا کہ وہ بڑھاپے میں اپنا ذہنی توازن کھو چکا تھا اور صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کے قابل نہیں رہا تھا، بلکہ ائمہ جرح و تعدیل کی اکثریت نے اس کو غیر ثقہ قرار دیا ہے اور جن ائمہ نے اس کے مخبوط الحواس اور یاوہ گوئی سے موصوف ہونے سے قبل کے اس کے حالات لکھے ہیں انہوں نے بھی اس کو ثقاہت کی صرف ایک معمولی صفت ’’صدوق‘‘ سے موصوف کیا ہے اور ذہنی توازن بگڑ جانے کے بعد اس کو متروک ، غیر ثقہ اور منکر وغیرہ جیسی صفات سے موصوف کیا ہے۔[2] لہٰذا اس کی روایت کردہ حدیث ابن عباس
[1] ص: ۳۱۲۳.
[2] ملاحظہ ہو: میزان الاعتدال، ص: ۴۱۵،۴۱۷۔ ج:۳۔ التاریخ الکبیر، ص: ۲۹۱، ج۴۔ الجرح والتعدیل: ۱۸۳۰، ج:۴.