کتاب: روشنی - صفحہ 47
﴿قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ پر دلالت کرتا ہے مطلب یہ ہے کہ ’’ وہ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے جانے کے بعد اگرچہ مر چکے ہیں، لیکن برزخی زندگی میں وہ جس ناز و نعمت سے متمتع ہیں اس کی وجہ سے ان کو مردہ نہ کہو، یعنی مردہ مت سمجھو۔ اور اگر حرکت ، جیسی کہ نماز کی حرکت ہے دنیوی زندگی پر دلالت کرتی ہے تو پھر اس حدیث کو کیا کریں گے جس کی روایت حافظ طبرانی نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے کی ہے اور جس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خواب سے ہے جس میں خواب میں ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور آپ کو جنت و جہنم کے بہت سے مقامات کی سیرکرائی اس میں ایک جگہ آیا ہے’’ ہم روانہ ہوئے اور اچانک ایسی لڑکیوں اور لڑکوں کے پاس پہنچ گئے جو دونوں نہروں کے درمیان کھیل رہے تھے، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ اس آدمی نے جواب دیا: مؤمنین کی ذریت۔‘‘[1] تو کیا ان بچوں کا کھیلنا ان کے دنیوی زندگی سے متمتع ہونے کو ثابت کرتا ہے؟ یاد رہے کہ حافظ ابن حجر نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کو اس طویل حدیث کے علاوہ قرار دیا ہے جو حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب سے متعلق مروی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح زندہ سمجھتے ہیں جس طرح قرآن و حدیث کے مطابق وفات پا جانے سے پہلے زندہ تھے، وہ بیمار ذہنیت رکھتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ صرف صوفیا کے ایک غالی اور مبتدع فرقے کا عقیدہ ہے۔ نہ اہل سنت و جماعت کا اور نہ کتاب و سنت پرنظررکھنے والے اور ان کے مطابق عمل کرنے والے صوفیا کا۔ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے سے متعلق حدیثوں کو پیش کرنے سے پہلے یہ واضح کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ خواب میں جن افراد کو بھی دیکھا جاتا ہے چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ، تو وہ حقیقی نہیں ہوتے بلکہ ان کے شبیب ، اور مثیل خواب میں دیکھے یا دکھائے جاتے ہیں، مثال کے طور پر اگر کوئی کسی زندہ انسان کو خواب میں دیکھتا ہے ، تو وہ اس کے شبیہ
[1] فتح الباری، ص: ۳۱۴۹، ج: ۳.