کتاب: روشنی - صفحہ 46
آپ کو دنیوی زندگی حاصل ہے ، جب کہ قرآن و حدیث کی صراحتوں کے بموجب آپ وفات پا چکے ہیں، اور آپ کی قبر مبارک وہ پہلی قبر ہو گی جس میں روزِ قیامت شگاف پڑے گا اور آپ قبر سے باہر تشریف لائیں گے۔[1] اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیامت کی آمد سے قبل تک آپ کو حیاتِ برزخی حاصل ہے جو دنیا کی زندگی سے مختلف ہے اور برزخی زندگی میں اس طرح کی نقل و حرکت جو دنیوی زندگی کا خاصہ ہے، ناممکن ہے۔ لہٰذا قبر مبارک سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے اور حاجی امداد اللہ کے سر پر عمامہ رکھنے یا باندھنے کا واقعہ یا دعویٰ درست نہیں ہے۔ ۳۔ جو لوگ قبر مبارک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو برزخی نہیں دنیوی مانتے ہیں اور اس کی دلیل میں وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ آپ نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔[2] تو یہ حدیث ان کے لیے دلیل نہیں بن سکتی، کیونکہ اس میں قبر کے اندر موسیٰ علیہ السلام کے نماز پڑھنے کا ذکر آیا ہے اور قبر کے اندر مدفون انسان کا کوئی بھی عمل اور کوئی بھی حالت دنیوی زندگی سے اس کے موصوف ہونے پر دلالت نہیں کرتی، ہاں، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہوتا کہ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو قبر سے باہر نماز پڑھتے دیکھا ہے تو اس پر اس کے سیاق و سباق کی روشنی میں غور کیا جاتا۔ تقی الدین سبکی اور ان کے ہم مشربوں نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’ نماز پڑھنا زندہ جسم کا تقاضا کرتا ہے‘‘[3] تو یہ دعویٰ اس وقت درست ہوتا جب حدیث میں اس کی کیفیت اور حالت بیان کی گئی ہوتی، کیا قرآن پاک میں شہداء کے بارے میں یہاں تک صراحت نہیں ہے کہ ’’وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں۔‘‘ (البقرہ:۱۵۴، آل عمران: ۱۶۹) مگر یہ ان کو مردہ قرار دینے کے بعد فرمایا گیا ہے، جس پر ﴿یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ ……
[1] مسلم: ۲۲۷۸. [2] مسلم: ۲۳۷۵. [3] المہند علی المفند، ص: ۴۰.