کتاب: روشنی - صفحہ 45
قبر مبارک میں ہے اور روح پاک ’’ رفیق اعلیٰ‘‘ میں اور احادیث میں آپ کی اور دوسرے انبیاء او ررسولوں کی جس زندگی کا ذکر آیا ہے وہ اس دنیا میں اور آخرت کے درمیان حائل عالم برزخ کی زندگی ہے اور عالم برزخ سراسر غیب ہے، جس کے بارے میں کسی بھی فرد بشر کو کوئی علم حاصل نہیں ہے، سوائے اس علم کے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سرفراز فرمایا تھا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ برزخی زندگی جہاں وفات پانے سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے یکسر مختلف ہے وہیں آپ کی اس برزخی زندگی کے بارے میں کسی بھی انسان کو کوئی علم حاصل نہیں ہے، البتہ یہ بات قطعی اور فیصلہ کن ہے کہ اسلام سے نسبت کا دعویٰ کرنے والی جن جماعتوں اور افراد کا یہ دعویٰ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض نام نہاد بزرگوں کو شرفِ ملاقات سے نوازتے ہیں، ان کی فریادیں سنتے ہیں اور ان کو جواب دیتے ہیں، قبر مبارک سے نکل کر بعض صلحاء کو مسند ارشاد پر سرفراز فرماتے ہیں اور ان کے سروں پر عمامے باندھ کر ان کی امامت و ولایت کو سند قبول عطا فرماتے ہیں تو یہ سارے دعوے من گھڑت اور مردود ہیں۔ قبر مبارک سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے اور حاجی امداد اللہ کے سر پر عمامہ رکھنے کے جس واقعہ کا ذکر اوپر کیا گیا ہے وہ کسی بھی تاویل سے صحیح نہیں ہو سکتا جس کی چند وجوہ ہیں: ۱۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر بفرض محال قبر سے نکلے ہوں گے تو اس وقت اس کے پاس اور لوگ بھی رہے ہوں گے اور حاجی امداد اللہ کے علاوہ ان کے مشاہدے میں بھی یہ بات آنی چاہیے تھی، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کی وجہ سے قبر مبارک میں اتنا بڑا شگاف ہونا بھی لازمی ہے جس سے آپ باہر آئے ہوں اور پھر اندر تشریف لے گئے ہوں۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن سے حاجی صاحب موصوف کے علاوہ سیکڑوں افراد کو واقف ہونا چاہیے مگر اپنی تمام تر اہمیت اور خارق عادت ہونے کے باوجود اس واقعہ کا ذکر مسجد نبوی کے زائرین میں سے کسی نے نہیں کیا ہے؟!! ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی قبر مبارک سے باہر تشریف لانے سے یہ لازم آتا ہے کہ