کتاب: روشنی - صفحہ 44
انتقال فرمائیں گے۔‘‘ [1] اسی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’کل میں نے تم لوگوں سے ایک بات کہی تھی جو اس طرح نہیں تھی جیسی میں نے کہی تھی۔ اللہ کی قسم! میں نے تم لوگوں سے جو بات کہی تھی وہ نہ مجھے اللہ کی کتاب میں ملی تھی ، اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم میں ، بلکہ مجھے یہ اُمید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہیں گے …!! ‘‘[2] اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو یہ فرمایا تھا کہ ’’تم میں سے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کر رہا تھا …… ‘‘ تو ا س کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ نعوذ باللہ! مسلمانوں میں کوئی ایسا بھی تھا جو آپ کی عبادت اور پرستش کر رہا تھا ، بلکہ یہ اُصولی فرمان تھا کہ رسول یا نبی معبود نہیں ہے کہ اس کو دائمی زندگی حاصل ہو یہ تو صرف معبودِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، یہ درحقیقت ویسا ہی ہے جیسا اللہ کا ارشاد اپنے محبوب بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ﴾ (الاحزاب:۱) ’’اے نبی! اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب نعوذ باللہ یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے نہیں ڈرتے تھے اور کفار و منافقین کی اطاعت کرتے تھے، بلکہ یہ ایک اصولی حکم اور فرمان ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ذریعہ تمام اہل ایمان کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تمہارا معبود اور رب ہونے کی حیثیت سے اور حقیقی اور کامل اور دائمی علم و حکمت کی صفت سے موصوف ہونے کی وجہ سے صرف اللہ تعالیٰ اس بات کا سزا وار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور اس کی اطاعت کی جائے۔ سطور بالا میں قرآن و حدیث کی تصریحات کی روشنی میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ اس امر میں قولِ فیصل اور حکم قاطع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور آپ کا جسم اطہر
[1] بخاری: ۷۲۱۹. [2] فتح الباری ، ص: ۳۲۲۵، ج: ۳.