کتاب: روشنی - صفحہ 43
ہوئے کلمۂ شہادت پڑھا۔ لوگ عمر کو چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہایت دو ٹوک اور شک و تردد سے پاک الفاظ میں فرمایا: ((أما بعد، فمن کان منکم یعبد محمدًا قد مات ومن کان یعبد اللّٰہ فان اللّٰہ حی لا یموت۔)) ’’اما بعد، تم میں سے جو محمد کی عبادت کر رہا تھا( وہ جان لے کہ) درحقیقت محمد وفات پا گئے اور جو اللہ کی عبادت کر رہا تھا( اسے یہ معلوم رہے کہ) یقینا اللہ زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی۔‘‘ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سورۂ زمر کی آیت نمبر۳۰، ﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ﴾ اور سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۱۴۴ ﴿ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ﴾ کی تلاوت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جب میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آل عمران کی آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا تو مجھ پر سکتہ چھا گیا اور میرے پاؤں میرا بوجھ سہنے کے قابل نہ رہے، اور میں زمین پر گر پڑا اور مجھے یقین ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔ ‘‘ ’’اُدھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ حال ہو گیا کہ وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگے۔‘‘[1] دوسرے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کے طور پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ہو جانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر اپنے طرزِ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے اُمید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہیں گے اور ہم سب کے آخر میں
[1] بخاری: ۱۲۴۱، ۱۲۴۲، ۴۴۵۲، ۴۴۵۳،۴۴۵۴.