کتاب: روشنی - صفحہ 42
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کمزور تھے، مگر شجاعت و بہادری اور قوت تحمل میں ان پر فوقیت رکھتے تھے۔ تاریخ کے سینے میں ان کی اس انفرادیت کے بہت سے واقعات محفوظ ہیں جن میں سب سے نمایاں اور سب سے منفرد وہ عظیم کردار اور غیر معمولی طرزِ عمل ہے جس کا اظہار انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر کیا ۔ چنانچہ سیّدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اپنی خالہ، اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ ’’ سنح‘‘ میں تھے اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ’’ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی ہے۔‘‘ ام المؤمنین نے فرمایا:’’ عمر نے بعد میں بتایا کہ ’’ میرے دل میں یہی خیال پیدا ہوا تھا کہ آپ کی وفات نہیں ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس حالتِ غنودگی سے یقینا بیدار کرے گا، اور آپ ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے جو آپ کو مردہ سمجھ رہے ہیں یا منافقین کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالیں گے۔‘‘ [1] اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور کسی سے بات کیے بغیر سیدھے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رُخ انور سے چادر ہٹائی ، آپ کا بوسہ لیا اور فرمایا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان! کس قدر پاکیزہ ہیں آپ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں۔‘‘ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اللہ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا اور جو موت آپ کے لیے لکھ دی گئی تھی وہ آپ کو مل گئی۔‘‘ اس کے بعد وہ حجرے سے باہر نکلے اور دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے باتیں کر رہے ہیں، انہوں نے ان سے کہا: بیٹھ جاؤ، انہوں نے انکار کر دیا ، دوبارہ کہا کہ بیٹھ جاؤ۔ عمر نے پھر انکار کر دیا۔ اب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے صرف نظر کرتے
[1] ابن ماجہ: ۱۶۵۰.