کتاب: روشنی - صفحہ 41
ہوں جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عموماً اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خصوصاً دوچار ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو بے مثال اور والہانہ محبت تھی اور ان کے دلوں میں آپ کی عظمت و تقدس کا جو احساس تھا اس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملتے ہی ان کے ہوش و حواس اُڑ گئے، اور ان کا پورا وجود دہل کر رہ گیا۔ ان کو یہ بات تو معلوم تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں اور موت لازمۂ بشریت ہے، مگر یہ عقائدی اور نظریاتی بات تھی، بایں معنی کہ ان کے ذہن و دماغ اس وقت کے تصور سے خالی تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں نہیں ہوں گے، اس طرح جب وہ وقت آگیا کہ ان کی جان سے زیادہ محبوب او رعزیز ہستی ان سے جدا ہو گئی ، اور وہ زبانِ مبارک خاموش ہو گئی جس سے وہ وحی الٰہی سنتے تھے تو ان کا پورا وجود لرز گیا اور پوری دنیا ان کی نگاہوں میں تاریک ہو گئی، اور بقول حضرت انس رضی اللہ عنہ : ’’جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں رونق افروز ہوئے تھے اس دن اس کی ہر چیز روشن اور منور ہو گئی تھی اور جس دن آپ کی وفات ہوئی اس دن مدینہ کی ہر چیز تاریکی میں ڈوب گئی اور ابھی ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن سے پہلے اپنے ہاتھ ہی جھاڑے تھے کہ ہم نے اپنے دلوں کو ایک دوسرے سے بیگانہ پایا۔‘‘ [1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر یہ خبر بجلی بن کر گری، ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو جو غیر معمولی اور والہانہ محبت و تعلق خاطر تھا وہ اس دل ہلا دینے والا صدمہ کو برداشت کرنے سے جواب دے گیا۔ بلاشبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی سے نہیں، بلکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی، مگر انہوں نے نورِ نبوت سے جو منفرد کسب فیض کیا تھا اس کی وجہ سے ان کے اندر صدمات کو برداشت کر لینے کی قوت بھی سب سے زیادہ تھی اور شدید سے شدید آزمائشوں میں بھی ان کے اوسان خطا نہیں کرتے تھے۔ وہ جسمانی طور پر
[1] ابن ماجہ: ۱۶۵۴.