کتاب: روشنی - صفحہ 40
کوشش سبھی یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گلو خلاصی ہو جائے اور وہ چین کی بانسری بجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے درج ذیل دو آیتیں نازل فرمائیں:
﴿ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ (34) كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ﴾ (الانبیاء: ۳۴، ۳۵)
’’اے نبی! ہم نے تو تم سے پہلے کسی بھی انسان کے لیے دائمی زندگی نہیں بنائی ہے، اب اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہیں گے، ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تمہیں آزمارہے ہیں ، آخر تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی جیسا کہ یہ اہل کفر و شرک تمنا کر رہے ہیں تو اس میں تعجب کی کیابات ہے، اس دنیا میں ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے تو کوئی بھی نہیں آیا ہے، چاہے وہ رسول ہو یا عام انسان موت تو لازمۂ بشریت ہے اور خیر و شر تو درحقیقت آزمائش کی شکلیں ہیں اور بالآخر سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے، جہاں ہر انسان کو یہ معلوم ہو جائے گاکہ کون کامیاب ہے اور کون ناکام۔
سورۃ الزمر میں اللہ تعالیٰ نے توحید و شرک اور دونوں کے انجام کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ:
﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ﴾ (الزمر:۳۰)
’’اے نبی! درحقیقت تم بھی مرنے والے ہو اور یہ بھی مرنے والے ہیں۔‘‘
قرآن پاک کی مذکورہ بالا آیتوں کی جو واقعاتی تفسیر احادیث میں بیان ہوئی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پا جانے والے مسئلے میں بیان قاطع ہے۔ میں رسول اکرم’’ فداہ ابی و امی‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاتِ جانکاہ کے موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس دو ٹوک اور واضح اعلان کو نقل کرنے سے قبل کہ آپ کی وفات ہو گئی اس صدمہ کی تاثیر کو مختصراً بیان کر دینا چاہتا