کتاب: روشنی - صفحہ 39
انبیاء، نہ اولیاء اور شہدا مستثنیٰ ہیں اور نہ عامۃ الناس۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پا جانے کی ایک سے زیادہ دلیلیں خود قرآن پاک میں موجود ہیں اور اپنے مدعا میں اس قدر واضح ہیں کہ ان کا انکار یا ان کی تاویل مکابرہ ہے۔ غزوۂ احد میں جب دشمنوں نے یہ افواہ پھیلا دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے ہیں تو مسلمانوں میں بد دلی پھیل گئی۔ اس موقع پر سورۂ آل عمران کی درج ذیل آیت نازل ہوئی: ﴿ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ﴾ (آل عمران: ۱۴۴) ’’محمد تو محض ایک رسول ہیں، اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں ، تو کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیا جائیں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ جو اُلٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا اور اللہ اپنے شکر گزاروں کو ضرور بدلہ دے گا۔‘‘ اس آیت کے اسلوب بیان پر غور کیجیے جس کو ’’اسلوب قصر‘‘ کہتے ہیں۔ قصر کے معنی ہیں: کسی چیز کو کسی چیز تک محدود کر دینا، آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ہونے تک محدود کر دیا ہے ، بایں معنی کہ آپ صرف رسول ہیں رسول کے سوا کچھ نہیں ہیں، یعنی رسول ہونے کی وجہ سے آپ الوہیت اور ربوبیت سے موصوف نہیں ہو گئے اور نہ رسالت سے سرفراز کیے جانے کی وجہ سے آپ کو دائمی زندگی حاصل ہو گئی ہے ، بلکہ اس کے برعکس گزشتہ رسولوں کی طرح آپ کو بھی اس دنیا سے جانا ہے، چاہے یہ طبعی موت کے ذریعہ ہو یا قتل کے ذریعہ، لہٰذا اے مومنو! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی رسالت و نبوت کی بنیاد پر اس سے زیادہ اونچا مقام دینے کی کوشش مت کرو، جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو سرفراز کر دیا ہے اور آپ کا بحیثیت رسول و نبی یہ مقام بلند اس امر کو قطعاً مستلزم نہیں ہے کہ آپ موت سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ کفار مکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے درپہ آزار تھے، ان کی خواہش ، سازش اور